عجب پاکستانیوں کی غضب مشکل

بدھ 30 اگست 2023
author image

شاہد عباسی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستانی عجیب مشکل کا شکار ہیں۔ وہ خربوزہ بن گئے جو چھری پر گرے تو بھی نقصان اپنا اور چھری اس پر گرے تو بھی کٹنا اسی نے ہے۔ تاجر ہو یا کارخانے دار، آڑھتی ہو یا کسان، ریگولیٹڈ سیکٹر ہو یا نان ریگولیٹڈ، فائلر ہو یا نان فائلر، وطن عزیز میں ہر ایک دہرے نہیں بلکہ تہرے ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔

آمدن پر ٹیکس لگانے والے نابغوں کی پالیسیوں کی بدولت تنخواہ دار سے تنخواہ ملنے سے پہلے انکم ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں وہ جب یوٹیلیٹی بلز ادا کرتا ہے تو اس سے انکم ٹیکس نئے سرے سے بھی منہا کیا جاتا ہے۔ جرنل سیلز ٹیکس، فردر ٹیکس، صوبائی ٹیکس، بلوں میں شامل فیس، ڈیوٹیز ادا کرنے والا چاہے تو بھی اور نہ چاہے تو بھی مجبور ہے کہ جتنی بل کی اصل رقم ہے اس کے تقریبا 40 فیصد جتنی رقم ٹیکس، ڈیوٹی، فیس کی مد میں بھی ادا کرے۔

اب کنزمپشن پر ٹیکس کی باری آتی ہے۔ تنخواہ دار ہو یا چھوٹا موٹا کاروباری، چند خوش قسمت شعبوں یا مصنوعات کو چھوڑ کر 18 فیصد تک کی بھاری شرح کا جنرل سیلز ٹیکس بھی ادا کرنا ہے۔ ماچس کی ڈبیا خریدنی ہو یا ہوائی جہاز کا ٹکٹ، بچے کی خوراک لینی ہو، زندگی بچانے کو دوا ہو، والدین کو سہولت بہم پہنچانی ہو یا اولاد کی ضرورتیں پوری کرنا ہو، ہر قدم پر ٹیکس در ٹیکس در ٹیکس کا ایسا گھن چکر ہے کہ کوئی چاہے بھی تو سمجھنا مشکل لگتا ہے۔

معیشت سے جڑے افراد ٹیکسوں کی کہانی کو عوامی انداز میں بیان کریں تو کہتے ہیں کہ ہر پاکستانی شہری اپنی سالانہ آمدن کا تہائی حصہ ٹیکس دیتا ہے۔ گویا آپ نے سال میں جو 12 تنخواہیں وصول کی ہوتی ہیں، ان میں سے 4 سیدھی سیدھی ٹیکس میں چلی جاتی ہیں۔ باقی 8 تنخواہوں سے سال بھر کا خرچ پورا کریں۔

اتنے دھڑلے سے ٹیکس مانگنے والی ریاست ہو یا ہر ایک کو مجبور کر کے ٹیکس لینے والا نظام ہو، اس نے پاکستانیوں کو تعلیم، صحت، سفر، غذا، مکان جیسی بنیادی سہولیات نہیں دینی۔ کچھ کرنا ہے تو اس طرح کہ غیرمعیاری ہونے کی وجہ سے کوئی استعمال ہی نہ کرے، یہ بالکل ویسی ہی حرکت ہے جیسی بابو صاحبان اپنا کام پورا کرنے کے لیے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کے ساتھ کرتے ہیں۔

عام دکاندار تو ان کے چھاپوں کا شکار رہتا ہے لیکن بڑے مالز بچے رہتے ہیں۔ ڈی سی صاحب بہادر کے حکم پر وہاں ایک کونے میں ’ڈی سی ریٹس‘ کا بینر لگ جاتا ہے۔ اس بینر کے نیچے گلے سڑے پھل وسبزیاں اور پتھر سے سخت دالیں، کیڑے لگے چاول پڑے ہوتے ہیں۔ جنہیں کوئی خریدنا تو کجا مفت لے جانا بھی پسند نہیں کرتا۔ نتیجتا ہر جانب سے مایوس ہو کر جب ایک عام پاکستانی اپنی غذا، تعلیم، صحت، رہائش سمیت ہر مشکل اپنے برتے پر پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ بجا طور پر سوچتا ہے کہ میں ٹیکس کیوں دوں؟

اگر ٹیکس دینے سے منکر نہ ہو تو سوچتا ہے کہ ٹیکس کس لیے دوں؟ کیا بیوروکریسی، منتخب نمائندوں، سول وعسکری سرکاری ملازمین، عدلیہ کی مراعات کے لیے دوں یا پروٹوکول کلچر کے لیے۔ کرپٹ اہلکاروں کی پرورش کرنے کو ٹیکس دوں یا ضرورتیں پوری نہ کر سکنے والے نااہل وبدبودار نظام کو پالوں۔

اس سارے تماشے میں کچھ ایسا ہو رہا جسے بہت کم لوگ محسوس کر پا رہے ہیں۔ گجب مشکل کا شکار عجب پاکستانی پر مشکلات اتنی بڑھ چکی ہیں کہ حالات اسے اپنے زوربازو پر انحصار کرنا سکھا رہے ہیں۔ یہ مرحلہ یونہی آگے بڑھتا رہا تو بازار سیاست کے خوانچہ فروش ہوں یا انہیں کٹھ پتلیوں کی طرح نچانے والے بازیگر، اس پاکستانی نے ہر ایک کے سہارے کو اتار پھینکنا ہے۔ اس کے بعد فرانس کی طرح ہاتھوں پر پڑے چھالے دیکھ کر انجام کا فیصلہ کرے یا اس بدحالی کے ذمہ دار ہر افسرواہلکار کے لٹکتے جسموں سولیاں سجائے، یہ فیصلہ پھر پاکستانی نے کرنا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp