پندرہ برس قبل بالی ووڈ کی ایک فلم ’ تارے زمین پر‘ ریلیز ہوئی تھی۔ فلم اس قدر کامیاب ہوئی کہ اس نے ریلیز ہونے کے بعد، ابتدائی تین ہفتوں میں تین اعشاریہ تریسٹھ ملین ڈالرز کمالیے۔ بھارت کے شہر ممبئی میں لوگوں نے تھیٹروں کے بجائے ’ تارے زمین پر‘ دیکھنے کے لئے سینماؤں میں جانا شروع کردیا۔
ایک اندازے کے مطابق اس فلم کی وجہ سے تھیٹروں کی آمدن 58 فیصد کم ہوگئی۔ فلم دنیا کے دیگر کئی ممالک میں بھی مقبول ہوئی۔ اس کی مقبولیت کا واحد سبب اس کا موضوع تھا۔ اس میں بچوں کی تعلیم و تربیت کو موضوع بنایا گیا۔
میں نے بہت سے لوگوں کو فلم دیکھنے کے بعد، اس احساس سے روتے ہوئے دیکھا کہ انھوں نے زندگی میں اپنے بچوں کے ساتھ بہت زیادتی کی، ان پر اپنے ایسے خواب مسلط کیے جنھیں پورا کرنا ان کے بس کی بات نہ تھی۔ وہ خواب ان کے رجحان اور اہلیت سے بالکل برعکس تھے۔
فلم کا مرکزی کردار، ایک آٹھ سالہ بچہ (ایشان) ہوتا ہے جو کلاس میں لکھنے پڑھنے میں شدید مشکل محسوس کرتا ہے۔ اساتذہ بھی غور و فکر کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ اس کی مشکل کا سبب کیا ہے؟ نہ ہی والدین بھی نہیں دھیان دیتے ہیں۔ بچے کو سکول میں بھی ڈانٹ ڈپٹ اور مارپیٹ کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور گھر میں بھی۔ کلاس فیلوز ’ایشان‘ کی ”نالائقی“ کا مذاق اڑاتے ہیں۔ یوں اسے والدین، اساتذہ اور کلاس فیلوزکی طرف سے ایک شدید قسم کے ذلت آمیز رویے کا سامنا کرنا ہے۔
آپ بخوبی سوچ سکتے ہیں کہ اس ٹرائیکا کے شکنجے میں پھنس کر بچے کی نفسیاتی حالت کیا ہوگی۔ جن والدین اور اساتذہ کو اب بھی بچے کی نفسیاتی حالت کا صحیح اندازہ نہیں ہو رہا ہے، وہ ذرا اپنے آپ کو اس بچے کی جگہ پر رکھ کر محسوس کریں۔
’ایشان‘ کی اس نفسیاتی حالت کے سبب اس کی ساری شخصیت بالکل تباہ ہو کر رہ گئی تھی۔ والدین نے جب اس کی ”نالائقی“ دیکھی تو اسے ایک بورڈنگ اسکول میں داخل کرا دیا کہ وہ چوبیس گھنٹے ایک خاص ماحول میں رہے گا تو تعلیمی حالت بہتر ہوجائے گی۔بورڈنگ اسکول میں بچہ اداس رہتا ہے اور ہر لمحہ اپنے گھر والوں کو یاد کرتا ہے۔ یہاں کے اساتذہ بھی اسے سدھارنے کے لئے سخت برتاؤکرتے ہیں۔
پھر اس کا ایک استاد (رام شنکر) بچے کے مسئلہ پر غور و فکر کرتا ہے، اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بچہ ’ڈسلکشیا‘ کا شکار ہے۔ وہ بچے کے والدین سے بات کرتا ہے اور ایک خاص حکمت عملی ترتیب دیتا ہے۔ رام شنکر کی کوشش اور محنت سے نہ صرف بچہ اچھا پڑھنے لکھنے لگتا ہے، بلکہ اس کی ایسی صلاحیتیں بھی نکھر کر سامنے آتی ہیں جنھیں دیکھ کر اس کے والدین بھی حیران رہ جاتے ہیں۔ جو لوگ اس بچے کو ”ڈفر“ کہتے تھے، اب وہی اس کی شاندار صلاحیتوں کے اظہار پر اش اش کرتے اٹھتے ہیں۔
فلم دیکھنے والے کہتے ہیں کہ یہ فلم ہر استاد اور ہر ماں، باپ کے لئے ہے، اس کے بعد وہ جائزہ لیں، کہیں وہ بھی اپنے بچوں کے اصل جوہر سے ناواقف تو نہیں؟ اپنی کم علمی کے سبب اپنے بچوں پر ظلم تو نہیں کر رہے؟ ہر طالب علم کے والدین کو ضرور جائزہ لینا چاہیے۔
ہمارے معاشرے میں ہر استاد کو ’رام شنکر‘ کی طرح اپنے ہر شاگرد کے مسائل کا گہری نظر سے جائزہ لینا چاہیے، تشخیص کرنی چاہیے، اس کے بعد علاج کے لئے ہر ممکن تدبیر اختیار کرنی چاہیے۔ دوسری طرف والدین کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے۔ انھیں اپنے بچوں کے لئے زیادہ متفکر ہونا چاہیے، ان کے مسائل، اسباب اور علاج پر غور و فکر کے لئے زیادہ سے زیادہ وقت صرف کرنا چاہیے کہ یہ بچے کی پوری زندگی کا معاملہ ہوتا ہے۔
اگر والدین اس سارے معاملے میں بے بسی محسوس کریں تو انھیں بچوں کی نفسیات کے اچھے ماہرین سے رابطہ کرنا چاہیے۔ یقیناً ان ماہرین سے، آپ کے بچے کی صرف ایک ملاقات ، اس کی پوری زندگی بدل دے گی۔