تاریخ جانے اس بارے میں کچھ کہے گی یا نہیں لیکن وقت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ عدالتوں میں موجود بعض ججوں کے بہروپ میں تحریک انصاف کے کارکنوں نے ایک شخص کی خاطر اس سارے نظام انصاف کو، ملک کے قانون کو اور اس سماج کی ساری قدروں کو پامال کر دیا۔
جس فکر کا مظاہرہ سپریم کورٹ کے بعض ججز عمران خان کے بارے میں کر رہے ہیں، اسی توجہ کے طالب اس ملک کی جیلوں میں قید ہزاروں قیدی ہیں۔ مگر نہ سپریم کورٹ نے ان کی حالت زار کے بارے میں کبھی پوچھا نہ اعلیٰ عدالت کے کسی جج نے یہ جرات کی کہ ان کی خوراک کی تفصیلات منگوائی جائیں۔
ہزاروں قیدیوں کے حقوق کو پاؤں تلے روند کے سپریم کورٹ کے ایک مشکوک بینچ نے یہ ضرور دریافت کیا کہ عمران خان کی خوارک کیا ہے؟ ان کے شب و روز کا احوال کیا ہے؟
جب تک سپریم کورٹ کو سربمہر رپورٹ جمع نہیں کرائی گئی، عمران خان کے کارکن ججزکے کلیجے میں جلتی آگ کا الاؤ کچھ کم نہیں ہوا۔
توشہ خانہ کیس ایسا نہیں ہے کہ اس پر بہت زیادہ تحقیق و تفتیش کی ضرورت پیش آئے۔ سب حقائق سامنے دھرے عدالتوں کا منہ چڑا رہے ہیں۔ غیرملکی دوروں کا حساب کتاب لکھا ہوا ہے، ان دوروں میں ملنے والے تحائف کی فہرست بھی منظرعام پر آچکی ہے۔
دوست ملک سے ملنے والی گھڑی کا قصہ سب کے سامنے ہیں۔ غائب ہونے والے تحائف کی فہرست اب بچے بچے کو ازبر ہے۔ اس تماشے میں صرف ایک چیز مفقود ہے، وہ ہےانصاف۔ دور دور تک اس کا شائبہ تک نہیں ہو رہا۔ کیونکہ یہاں انصاف صرف ایک شخص کو بچانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔
لگتا ہے انصاف کے ایوانوں میں بیٹھے بعض ججز کو کسی ثبوت سے کوئی غرض ہے نہ حقائق ان کا مطمع نظر ہیں۔ اب انہیں لاء کی خوشنودی عزیز نہیں بلکہ وہ صرف مدر ان لاء کے حکم کی تعمیل فرض اولین سمجھتے ہیں۔
یوں لگتا ہے انصاف کے بڑوں نے کہیں دل ہی دل میں طے کر لیا ہے کہ حقائق چاہے کچھ بھی ہوں، ثبوت چاہے کتنے ہی واضح کیوں نہ ہوں، عمران خان کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں ہونے دینا۔
یہ قصہ آج کا نہیں، اس ریت کو کئی برس گزر گئے۔ جب بھی عمران خان کا کوئی مقدمہ عدالت میں پیش ہوا مخصوص بینچ چھاتی تان کر سامنے آ گیا۔ پھر مقدمہ رہا ہے نہ مقدمے کا کوئی نشان۔ ہر مقدمے میں عمران خان اس بینچ کے توسط سے باعزت بری ہوئے، ہر الزام سے بچ گئے اور ہر ثبوت کے پیش ہونے پرعدالت نے آنکھیں میچ لیں۔
اس سلسلے میں ایک نہیں، بے شمار ایسی مثالیں موجود ہیں کہ باقی سب سیاسی قوتوں کا انصاف پر سے اعتماد ہی اٹھ گیا۔ وقت ایسا بھی آیا کہ باقی مجروح اور مضروب سیاسی قوتوں نے دل ہی دل میں یہ تسلیم کرلیا کہ یہاں انصاف کے معنی تحریک انصاف کے ہیں۔ قانون بنا ہی اسی لیے ہے۔ عدالتوں میں بڑی بڑی نشستوں پر لوگ براجمان بھی اسی وجہ سے ہیں۔
آپ نے کبھی سنا ہے کہ کسی ملک میں سپریم کورٹ، ہائیکورٹ کے فیصلوں پر اس طرح اثر انداز ہو کہ اسے دھمکیاں ہی دینے لگے۔ اپنی ماتحت عدالتوں کے خلاف ایسی دھونس دھاندلی اور دھمکی کی یہ مثال ہماری عدالتوں نے ہی قائم کی ہے۔ ہائیکورٹ سے توشہ خان کیس میں سزا معطلی کا فیصلہ ابھی آیا نہیں تھا کہ سپریم کورٹ کو اپنے فیصلوں کی جلدی پڑ گئی۔
یہ بھی کہا گیا کہ ایک بجے تک فیصلہ سنائیں تاکہ ہم دوبجے تک اپنی عدالت سجائیں۔ بڑی عدالت میں بیٹھے بعض لوگوں کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کس طرح خود جیل کا دروازہ کھولیں، عمران خان کے گلے میں پھولوں ڈالیں، اپنے ہی تراشے ہوئے بت کے گرد بھنگڑے ڈالیں اور ’خان تیرے جاں نثار‘ کے نعرے لگاتے گلی گلی گھومتے نظر آئیں۔
اس ملک کے نظام انصاف کو جتنا نقصان تحریک انصاف کے ججوں نے پہنچایا ہے، اس کا بیان بھی مشکل ہے۔ اس ملک میں قانون کی عمل داری، مساوات اور آئین کی عظمت جیسے نظریات کو جس بری طرح ان چند ججوں نے پامال کیا ہے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
اس ملک کے نظام کو اپنے ’کرش‘ کی خاطر تلپٹ کر کے بھاری بھرکم پنشنوں پر جانے والے جب ایوان انصاف سے رخصت ہو رہے ہوں گے تو یہ صرف ان کی رخصتی نہیں ہو گی، ان کے ساتھ انصاف کا جنازہ بھی جا رہا ہو گا جسے کندھا دینے کو ہم خیال جج بھی تیار نہیں ہوں گے۔
ملک میں اس وقت دو ہی مسئلے زیر بحث ہیں ایک عمران خان کے مقدمات میں ججز کی بے انصافی اور دوسرا بجلی کے بلوں سے تنگ آئے انسان۔ دونوں مسئلے بظاہر جدا جدا ہیں لیکن باہم مربوط بھی ہیں۔
بجلی کے بلوں کا بحران ہمیں سبق دیتا ہے کہ لوگ بہت حد تک برداشت کرتے ہیں لیکن ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ جب ان کی برداشت جواب دے جاتی ہے۔ لوگوں نے دوائیوں کی مہنگائی، آٹے کی مہنگائی، سکول کی فیسوں کی مہنگائی، ڈالر کی اڑان اور روپے کی ناقدری پراُف بھی نہیں کیا، سب کچھ برداشت کرتے رہے، جوتے کھاتے رہے لیکن اب معاملہ برداشت سے باہر ہو گیا ہے۔
اب لوگ احتجاج پر اتر آئے ہیں۔ وہ بجلی کے بل جلاتے ہیں یا خود کو نذر آتش کر لیتے ہیں ایسے میں واپڈا کا کوئی اہلکار یا کے الیکٹرک کا کوئی کارندہ ان کے ہاتھ چڑھ جائے تو یہ کچلے ہوئے لوگ سراپا انتقام بن جاتے ہیں، قانون اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں، گلیوں میں عدالتیں لگاتے ہیں۔
اس کہانی میں عمران دار ججوں کے لیے بھی سبق ہے۔ لوگ نے بے انصافی کو بہت حد تک برداشت کیا، سیاسی جماعتوں نے بہت انتقام سہا لیکن اب لوگوں کی برداشت ختم ہو گئی ہے۔ اب عدالتوں میں بڑی بڑی مسندوں پر بیٹھے ججوں کو اس وقت سے ڈرنا چاہیے جب بجلی کے بلوں کو پکڑ سڑکوں پر آنے والے لوگ انصاف کے حصول کے لیے گلیوں میں عدالتیں لگانے لگ جائیں۔ حالات بتاتے ہیں کہ وہ وقت دور نہیں کیونکہ اب صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔