ڈرائی پورٹ پر کھڑی تقریباً 40 وینٹیج گاڑیوں کی کلیئرنس کا معاملہ ابھی تک سلجھ نہ سکا۔ حکام نے سینیٹ کمیٹی کو بتایا کہ یہ وینٹیج گاڑیاں امپورٹرز اپنے رسک پر لے کر آئے اور چونکہ وینٹیج گاڑیوں کے حوالے سے کوئی پالیسی واضح نہیں اس لیے وزارت اس معاملے کے حوالے سےسمری بنا کر 2 دفعہ وفاقی کابینہ میں لے کر گئی لیکن انہوں نے نہ اسے مسترد کیا اور نہ ہی منظوری دی۔
وزیراعظم کو خط
کمیٹی میں معاملے پر بحث کے بعد تجویز دی گئی کہ وینٹیج گاڑیوں کی کلیئرنس کا معاملہ دوبارہ وفاقی کابینہ میں لے کر جایا جائے اور کوشش کی جائے کہ جن لوگوں نے یہ گاڑیاں درآمد کی ہیں ان کو ریلیف مل سکے- کمیٹی نے اس حوالے سے وزیراعظم کو خط لکھنے کا بھی اعادہ کیا-
قائمہ کمیٹی برائے تجارت کا اجلاس
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر ذیشان خانزادہ کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ سینیٹرز فدا محمد، پلوشہ محمد زئی خان، طلحٰہ محمود اور دنیش کمار اجلاس میں شریک ہوئے۔
نگران وفاقی وزیر برائے تجارت گوہر اعجاز ، سیکرٹری تجارت، سی ای او ٹی ڈیپ محمد زبیر موتی والا، اور دیگر متعلقہ حکام نے بھی اجلاس میں شرکت کی-
کمیٹی کو مفصل بریفنگ
نگراں وفاقی وزیر برائے تجارت گوہر اعجاز نے درآمدات،برآمدات کی موجودہ صورتحال اور دیگر متعلقہ معاملات پر کمیٹی کو مفصل بریفنگ دی، انہوں نے کہاکہ برآمدات کو بہتر بنانے کے لیے ہمیں اصلاحات اور سازگار ماحول چاہیے۔ اپنے ایکسپورٹرز کے لیے باہر ممالک کے دروازے کھولنا ہماری ترجیحات میں سے ہے۔
ایکسپورٹرز کی مدد کرنی ہوگی
انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے ایکسپورٹرز کا ہاتھ پکڑنا ہوگا ان کی مدد کرنی ہوگی۔انہوں نے مزید کہا کہ اپنے ایکسپورٹرز اور صنعتکاروں کے لیے ایک جامع اسٹرکچر بنانے اور ان کو عزت دینے کی ضرورت ہے۔
بجلی کے بلوں کا معاملہ
بحث کے دوران سینیٹر فدا محمد نے بجلی کے بلوں کا معاملہ اٹھایا اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا-ان کا کہنا تھا کہ مہنگی بجلی کی ذمہ دار آئی پی پیز ہیں-103 آئی پی پیز کی وجہ سے بجلی اتنی مہنگی ہوئی ہے۔ نگراں وفاقی وزیر نے بتایا کہ صنعت میں لائن لاسز 8 فیصد جب کہ رہائشی علاقوں میں لائن لاسز تقریباً 35 فیصد ہیں۔
پچھلے سال ملک کی برآمدات 32.5 بلین ڈالرز تھیں
نگراں وفاقی وزیر برائے تجارت گوہر اعجاز نے مزید بتایا کہ پچھلے سال ملک کی برآمدات 32.5 بلین ڈالرز تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میری کوشش ہے کہ برآمدات کو 58 بلین ڈالرز پر لے کر جاؤں، جب کہ ٹارگٹ 80 بلین ڈالرز ہے۔
’زیرو ریٹڈ رجیم‘ واپس آنا چاہیے
انہوں نے مزید کہا کہ ٹارگٹ کے حصول کے لیے ہر صنعتکار سے ملاقاتیں کر رہا ہوں اور اس حوالے سے فریم ورک پر کام ہو رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’زیرو ریٹڈ رجیم‘ کو واپس لے کرآنا چاہیے۔
زبیر موتی والا کی اسٹریٹیجی
سی ای او ٹی ڈیپ محمد زبیر موتی والا نے ایگرو اینڈ فوڈ، آئی ٹی اور سی فوڈ کی برآمدات کو مزید بڑھانے کے حوالے سے اپنی اسٹریٹیجی سے کمیٹی کو آگاہ کیا۔
انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ چونکہ ٹیکسٹائل کی برآمدادت کو مزید نہیں بڑھایا جا سکا اس لیے ہم نے دیگر اشیاء کا انتخاب کیا، جس میں ابھی تک کامیابی حاصل ہوئی ہے اور اچھے نتائج سامنے آرہے ہیں۔
ایگرو۔فوڈ پراڈکٹس میں 8 فیصد بڑھاوا
مالی سال 2022-2023 میں ایگرو۔فوڈ پراڈکٹس (چاول، مچھلی، پھل، سبزیاں، گوشت، چینی/کنفیشنری، آئل سیڈز/نٹس/سپائسز، تمباکو اور دیگر اشیاء) کی برآمدات میں مجموعی طور پر 8 فیصد بڑھاوا آیا ہے۔ کل 5161 ملین ڈالرز مالیت کی اشیاء مالی سال 2022-2023 میں برآمد کی ہیں۔
برآمدات میں اضافہ
سیکرٹری وزارت تجارت نے بتایا کہ پراسسڈ فوڈ ، تمباکو کی برآمد میں زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وسط ایشیائی اور افریقی ممالک میں ہماری برآمدات زیادہ بڑھی ہیں جس میں تقریباً 25 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
سی ای او ٹی ڈیپ نے بتایا کہ 5 سے 10 سالوں میں ایگرو-فوڈ پراڈکٹس کی برآمدات کو 10 بلین ڈالرز تک لے کرجانا ہمارا ٹارگٹ ہے۔
FoodAg 2023
انہوں نے مزید بتایا کہ کراچی میں حالیہ ’ FoodAg 2023 ‘ نمائش انتہائی کامیاب رہی اور تقریباً 61 ممالک سے لوگوں نے شرکت کی۔
410 ملین ڈالرز کی ڈیل
نمائش میں تقریباً 410 ملین ڈالرز کی ڈیل پر دستخط ہوئے جو کہ بڑی کامیابی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ مالی سال 2023 میں سی فوڈ کی برآمدات میں 15 فیصد ( 496 ملین ڈالرز) کا اضافہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی ٹی سیکٹر میں ہماری ایکسپورٹ مالی سال 2023 میں 2.59 بلین ڈالرز رہی ہیں۔
پشاور میں ٹریڈ مارک رجسٹریشن آفس
آئی پی او حکام نے ٹریڈ مارک رجسٹریشن آفسز میں افرادی قوت کے فقدان کی وجوہات اور پشاور اور کوئٹہ میں آفسز کے قیام بارے کمیٹی کو آگاہ کیا۔ انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ 2 ستمبر 2022 تک سروس رولز نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت 98 میں سے 58 پوزیشنز خالی ہیں۔ اب سروس رولز نوٹیفائی ہو گئے ہیں تو ان اسامیوں پر بھرتیاں شروع کر لی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ پشاور میں ٹریڈ مارک رجسٹریشن کے آفس کا قیام جلد عمل میں لایا جائے گا جبکہ کوئٹہ کا دفتر بھی 3-4 ماہ میں کھول دیا جائے گا۔