انوار الحق کاکڑ کو نگران وزیر اعظم بنتے وقت اپنا مینڈیٹ معلوم تھا۔ ان کی نگران حکومت کو وہ سارے اقدامات کرنے تھے جن کی عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ کمٹمنٹ کی جا چکی ہے۔ وہ اقدامات بھی لینے ہیں جو کوئی بھی منتخب حکومت ووٹر کو جوابدہ ہونے کی وجہ سے نہیں اٹھا سکتی۔
نگران حکومت کے قیام کو مہینہ نہیں ہوا تھا جب لوگوں کے گھر بجلی کے بل پہنچے۔ بھاری بل دیکھ کر لوگوں کی چیخیں نکل گئیں۔ احتجاج شروع ہوا، خبروں سے فارغ میڈیا کو ایشو مل گیا۔ بے تحاشا تنقید سے حکومت گھبرا گئی۔
شدید احتجاج کے بعد انوار الحق کاکڑ نے اعلان کیا کہ وہ ریلیف فراہم کریں گے۔ یہ اعلان ایک تماشا بن گیا۔ حکومت کئی دن گزرنے کے بعد اتنا ہی کہہ سکی کہ بجلی کے بل زیادہ ہیں تو جو صارف قسطیں کروانا چاہیں تو کروا سکیں گے۔ پھر بیان آیا کہ یہ ریلیف بھی آئی ایم ایف کی اجازت سے مشروط ہے۔ پھر آئی ایم ایف سے رابطے کی خبریں بھی چلا دی گئیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بجلی کے بلوں پر ریلیف ممکن نہیں ہے۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے کے بعد اب پیٹرولیم اور گیس کی قیمت بھی بڑھانی پڑے گی۔ صرف ڈالر کی قیمت ایڈجسٹ کی گئی تو 10, 15 روپے اضافہ کہیں نہیں گیا۔ اس اضافے کے بعد بجلی کے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ کرنی ہو گی۔ نگران حکومت نے ریلیف دینے والی بات کر کے ’جبلوتی‘ ہی ماری ہے ۔
پی ڈی ایم حکومت نے جاتے جاتے نگران حکومت کے اختیارات میں اضافے کا بل منظور کرا دیا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ نگران حکومت معیشت کے حوالے سے ضروری اقدامات جاری رکھے۔ بجلی کے بلوں پر ریلیف دینے والی آئٹم نے نگران حکومت کی بے اختیاری اور بے بسی ظاہر کر دی ہے۔
نگران حکومت بھی عوامی دباؤ کا شکار ہو کر پریشر میں محسوس ہو رہی ہے۔ سفارتکاروں میں نگران حکومت کے حوالے سے کوئی اچھا تاثر نہیں بنا۔ اب تک لوگ مہنگائی کا ذمہ دار پی ڈی ایم حکومت کو ہی سمجھتے ہیں، بلکہ زیادہ سیدھی بات کریں تو ووٹر کا زیادہ غصہ شہباز شریف اور مسلم لیگ نون کی جانب ہی ہے۔
جاتے جاتے پی ڈی ایم حکومت مردم شماری کی منظوری دے گئی۔ اس سے الیکشن وقت پر ہونا ممکن نہ رہا۔ نگران حکومت کو 3,4 مہینے اضافی مل گئے۔ اس کے پیچھے سیاسی دانش یہ تھی کہ نگران حکومت جب آئی ایم ایف پروگرام پر عمل کرے گی۔ انرجی قیمتیں بڑھائے گی، ڈالر ریٹ کو اوپن مارکیٹ کے مطابق کرے گی، آئی ایم ایف کی قسط بھی مل جائے گی۔ حکومت کے کھاتے بھی سیدھے ہونے لگیں گے اور سختی کا الزام بھی پی ڈی ایم کی بجائے نگرانوں پر آ جائے گا، لوگ بھولنے لگیں گے۔
نگران حکومت دنوں میں غیر متعلق ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ سفارت کار پنڈی اسلام آباد میں اہم ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ جن میں الیکشن وقت پر کروانے کا کہہ رہے ہیں۔ کپتان جیل میں ہے اور یہ قیام طویل ہی دکھائی دے رہا۔ اس کی پارٹی قیادت روپوش ہے۔ پی ٹی آئی کا الیکشن لڑنا ہی یقینی نہیں ہے انٹرا پارٹی الیکشن نہیں ہو سکے۔ جس کی وجہ سے پارٹی رجسٹریشن اور الیکشن کا نشان بلا دونوں ہی خطرے میں ہیں۔ کپتان کے لیے بڑا سوال یہ ہے کہ وہ انٹرا پارٹی الیکشن میں قیادت کے لیے اعتبار کس پر کرے اور وہ بھی ایسا ہو جو پارٹی میں پھر ٹکا بھی رہے ۔
پی پی کے خلاف اچانک مہم زور پکڑ گئی۔ افسر اور پارٹی عہدیداروں پر سختی شروع ہے۔ ان کے بیرون ملک جانے پر روک لگائی جا رہی ہے۔ کرپشن کیسز کا الزام لگ رہا ہے۔ یہ سب سندھ میں ہو رہا ہے۔ آصف زرداری کی بلوچستان حکومت بنانے کی کوشش کو بریک لگ چکا ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں وہ لوگ جنہیں پی پی میں آنا تھا وہ پرویز خٹک یا جہانگیر ترین کے ساتھ چلے گئے ہیں۔
ان حالات میں جب نگران حکومت اڑنے سے پہلے ہی گر پڑی ہے۔ یہ ظاہر ہو گیا ہے کہ نگران حکومت ریلیف دینے کے تو قابل نہیں ہے۔ یہ مزید ایسے اقدامات کرے گی جس سے مہنگائی کی نئی لہر آئے گی۔ لوگ مزید مشتعل ہوں گے۔ پچھلی حکومتوں کو بھولیں گے ۔
پٹواری یہ سب دیکھ کر بہت مطمئن ہیں۔ ان پٹواریوں کا ماننا ہے کہ حالات ایسے ہوں گے کہ نگران حکومت اور پنڈی دونوں اس پوائنٹ تک آ جائیں گے کہ کہیں کہ الیکشن آج، ابھی، اسی وقت بلکہ رات میں ہی کروا دیے جائیں۔ وجہ وہی کہ نگران حکومت بنتے ہی دھڑام ہو گئی ہے۔