نیب ترامیم کیخلاف کیس: نئے قانون کے مطابق بے نامی جائیداد رکھنا مسئلہ نہیں، چیف جسٹس کے ریمارکس

جمعرات 31 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی نیب قانون میں ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی خصوصی بینچ نے کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بھی بینچ کا حصہ تھے۔

حمید الرحمٰن چوہدری کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے حکومتی وکیل مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ حمید الرحمٰن مشرقی پاکستان کے سیاست دان تھے جنہوں نے اپنے ٹرائل کی کہانی میں بتایا ہے کہ انہیں صرف پبلک آفس سے پرائیویٹ کال کرنے پر سزا دی گئی تھی۔

مخدوم علی خان کے مطابق، مغربی پاکستان سے تفتیشی افسران اور جج لے کر جاتے تھے جو ٹرائل کرتے تھے، یہی وہ حالات تھے جو آگے چل کر مشرقی اور مغربی پاکستان کو آمنے سامنے لائے، آئین قانون سازوں کو بااختیار بناتا ہے کہ وہ آج ایسے قوانین کو نہ پنپنے دیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ کیس ہمارے لیے ایجوکیشنل بھی ہے، انہوں نے مخدوم علی خان سے استفسار کیا کہ کسی جرم کی جزیات ہی تبدیل کر دیں تو اس پر کیا کہیں گے، جس پر مخدوم علی خان کا آئین کے آرٹیکل 12 کا حوالہ دیا۔

چیف جسٹس بولے؛ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ نیب ترامیم اور ان کا ماضی سے اطلاق غیر آئینی نہیں، بے نامی دار کے کیس میں معاملہ آمدن سے زائد اثاثوں کا ہوتا ہے، اب کہا گیا ہے آپ پہلے ثابت کریں کہ وہ اثاثے کرپشن سے بنائے، یہ ایک نئی چیز سامنے آئی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اب نئے قانون کے مطابق بے نامی جائیداد رکھنا مسئلہ نہیں بلکہ مسئلہ اس رقم کا بن گیا ہے کہ وہ کرپشن سے آئی یا نہیں، ایسا کرنا ہے تو پھر معلوم ذرائع آمدن سے زائد اثاثوں کو جرم کی کیٹیگری سے نکال دیں۔ یہ تو احتساب کی ریڑھ کی ہڈی تھی۔

مخدوم علی خان کی جانب سے خورشید شاہ کیس میں جسٹس منصور شاہ کے لکھے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے میں عدالت نے کہا تھا کہ پراپرٹی کس کے قبضے میں ہے اور اس کا منافع کون لے رہا ہے، دونوں چیزوں کا تعین ضروری ہے۔ نیب نے لوگوں کے لاکرز توڑے گھروں میں گھسے اور پھر ملا بھی کچھ نہیں۔

چیف جسٹس نے مخدوم علی خان سے استفسار کیا کہ آپ یہ کیسے کہہ رہے ہیں کہ آمدن سے زائد اثاثوں پر پہلے ثابت کیا جائے وہ کرپشن سے بنے، جس پر مخدوم علی خان بولے؛ استغاثہ اگر الزام لگا رہی ہے تو اس کے پاس ثبوت ہونا لازمی ہے۔ ہر بے نامی ٹرانزیکشن یا پراپرٹی کرپشن نہیں ہوتی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر ذرائع آمدن ملزم نے نہیں بتائے تو جرم ثابت نہیں ہو گا، آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ نیب ترمیم سے کوئی بنیادی حقوق متاثر نہیں ہو رہے، جس پر مخدوم علی خان بولے؛ میری گزارش یہی ہے کہ بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے کہ اب آمدن سے زائد اثاثے رکھنا کوئی سنجیدہ جرم نہیں رہ گیا، جس پر مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں سزائے موت آخری دو جرائم پر بھی ختم کی جا چکی ہے، اس کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ مجرموں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے، مختلف ادوار میں جرائم سے نمٹنے کے لیے مختلف طریقہ اپنایا جا سکتا ہے۔

دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ  ہمیں یہ نہیں معلوم کہ ان ترامیم کے پیچھے پارلیمنٹ کی سوچ کیا رہی ہے، ہو سکتا ہے پارلیمنٹ نے یہ ترامیم معاشی صورتحال کے پیش نظر کی ہوں، جس پر مخدوم علی خان بولے؛ کراچی میں مجھ سے کوئی چیک وصول کر کے آئی فون فروخت کرنے پر تیار نہیں تھا، مجھے اسلام آباد آ کر آئی فون لینا پڑا، مارکیٹ کی صورتحال تو یہی ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے دریافت کیا کہ جائیداد دبئی میں ہو تو سراغ کیسے لگایا جائے گا، جس پر حکومتی وکیل مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ دبئی پاکستان کو رپورٹ کرتا ہے اور اب تو سوئٹزرلینڈ سے بھی معلومات مل جاتی ہیں، عدالتیں ماضی میں نیب سے صرف میگا کرپشن کیس دیکھنے کا کہتی رہی ہیں۔

مخدوم علی خان کا موقف تھا کہ 50 کروڑ کی حد آج کے دور میں کوئی غیر فطری حد نہیں، جو پراپرٹی کبھی اسلام آباد میں ایک کروڑ کی خریدی گئی تھی اب وہ کئی گنا بڑھ چُکی ہے،

چیف جستس عمر عطا بندیال کے مطابق 1999ء سے لے کر اب تک پبلک سیکٹر اداروں کی کارکردگی دیکھیں، پی آئی اے اور بجلی سپلائی کمپنیوں کو دیکھ لیں، دوسری جانب پرائیویٹ سیکٹر میں دیکھیں اکانومی میں لوگوں نے چیزیں مینیج کی ہیں۔

درخواست گزارعمران خان کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل کا آغاز

حکومتی وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہو نے کے بعد درخواست گزار چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ 2018 سے 2021 تک نیب نے تفتیش پر 18 ارب روپے خرچ کیے ہیں۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ بولے؛  18 ارب روپے خرچ ہو گئے تو آپ قانون تبدیل نہیں کر سکتے یہ کون کر سکتا ہے۔

خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ اس طرح کے قانون بنانے سے روک سکتی ہے پیسے کے ضیاع پر یہ عدالت روک سکتی ہے، پلی بارگین میں اربوں روپے آ رہے تھے۔ چیف جسٹس بولے؛ یہ بہت سنجیدہ غلطی ہے کہ اگر 49 کروڑ روپے مالیت کے کرپشن کا ملزم ہے تو اس کا کیس ہی ختم ہو جائے۔

نیب ترامیم کیخلاف چیئرمین تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp