سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کیا انتخابات میں تاخیر ممکن ہے؟

جمعرات 31 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ آف پاکستان کے 3 رکنی بینچ نے پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کروانے کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی نظرثانی درخواست مسترد کر دی۔

قارئین کے لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ سپریم کورٹ میں نظرثانی درخواست منظور ہونے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں کیونکہ جس بینچ نے پہلا فیصلہ دیا ہوتا ہے وہی نظرثانی درخواست سنتا ہے اور دوسری بات یہ کہ نظرثانی درخواست میں وکیل تبدیل کرنے اور نئے حالات کے مطابق نئی وجوہات کا ذکر کرنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی۔

یہی وجہ تھی کہ جمعرات کی سماعت میں الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے جب اس مقدمے میں نئی وجوہات یا فریش گراوٗنڈز پر تیاری کے لیے ایک ہفتے کی مہلت مانگی تو سپریم کورٹ نے اس پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ صرف یہ بتائیں کہ ہمارے گزشتہ فیصلے میں کیا غلطی ہے۔

سجیل سواتی نے جواب دیا کہ انتخابات کی تاریخ دینا سپریم کورٹ نہیں الیکشن کمیشن کا اختیار ہے تو اس پر جسٹس منیب اختر بولے کہ وکیل صاحب یہ بات ذہن میں رکھیں کہ یہ نظر ثانی ہے لہٰذا جو نقاط آپ نے اصل مقدمے میں نہیں اٹھائے وہ آپ نظر ثانی میں نہیں اٹھا سکتے۔

سپریم کورٹ فیصلے کے بعد ممکنہ صورتحال کیا ہے؟

سپریم کورٹ کے آج کے فیصلے سے 2 باتیں تو طے ہو گئی ہیں۔ ایک یہ کہ سپریم کورٹ 90 روز میں انتخابات کروانے کے آئیںی عمل کو ہی نافذ کرنا چاہتی ہے اور انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے جو مختلف تھیوریز گردش کر رہی ہیں وہ شاید قابل عمل نہ ہوں لیکن اس صورتحال کا ختمی نتیجہ کیا نکلتا ہے اس کے لیے عوام کو چند روز مزید انتظار کرنا پڑے گا اور دیکھنا پڑے گا کہ ایک تو سپریم کورٹ آج کے فیصلے کے نتیجے میں توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز کرتی ہے یا نہیں اور پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی جانب سے 90 روز میں انتخابات کرانے کے لیے دائر کردہ درخواستوں کو کب سنتی اور فیصلہ کرتی ہے۔

آرٹیکل 254 کیا ہے؟

آرٹیکل 254 آئین پاکستان کا وہ آرٹیکل ہے جس کی رو سے ناگزیر وجوہات کی بناء پر انتخابات ملتوی کیے جا سکتے ہیں۔ جمعرات کی سماعت میں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے کہا کہ آپ خود سے یہ طے نہیں کر سکتے کہ آرٹیکل 254 کے تحت انتخابات میں تاخیر کر دی جائے بلکہ اس کے لیے آپ کو سپریم کورٹ آنا پڑے گا۔ دوسرے الفاظ میں سپریم کورٹ کو تاخیر کی وجوہات بتا کر اس سے اجازت لینی پڑے گی۔

بیرسٹر علی ظفر

سپریم کورٹ فیصلے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر وی نیوز نے جب پاکستان تحریک انصاف کے وکیل اور سابق وفاقی وزیر بیرسٹر علی ظفر سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ آج کے فیصلے کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور یہ اصول طے ہو گیا ہے کہ انتخابات 90 روز ہی میں ہوں گے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ مشترکہ مدادات کونسل جس نے سنہ 2023 کی مردم شماری کی منظوری دی اس کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ اس میں 2 صوبوں یعنی پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی نمائندگی ہی نہیں تھی اور نگران حکومتیں اس مردم شماری کی منظوری نہیں دے سکتیں۔

انہوں نے کہا کہ اس فیصلے سے پاکستان تحریک انصاف کے 90 روز میں انتخابات کے موٗقف کو تقویت ملی ہے۔

جی ایم چوہدری

آئینی و قانونی امور پر کتابوں کے مصنف اور سپریم کورٹ کے وکیل جی ایم چوہدری نے کہا کہ اس وقت سپریم کورٹ کی طاقت آپ کے سامنے ہے کیوں کہ اگر سپریم کورٹ اپنی پوری طاقت سے روبہ عمل ہوتی تو شہباز شریف، رانا ثناءاللہ، سابق حکومت کے وزرائے قانون و خزانہ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی شروع ہو چکی ہوتی۔

جی ایم چوہدری نے کہا کہ 90 روز میں انتخابات کروانا، سپریم کورٹ نہیں آئین کا معاملہ ہے۔ 14 مئی تو واپس نہیں آ سکتی لیکن توہین عدالت کی کارروائی شروع ہو سکتی ہے اور سپریم کورٹ کو اپنے احکامات پر عملدرآمد کے لیے سختی سے کام لینا پڑے گا۔

 حسن رضا پاشا

پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین حسن رضا پاشا نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب انتخابات کا معاملہ پہلے ہی تنازعے کا شکار ہو گیا تھا جب یہ بحث شروع ہو گئی کہ معاملہ چار تین سے مسترد ہو چکا ہے یا تین دو سے منظور تو اب یہ تنازعہ بھی تاریخ کا حصہ بن  چکا ہے۔

حسن رضا پاشا نے کہا کہ اس معاملے کو غیر ضروری طور پر لاہور ہائیکورٹ سے اٹھا کر سپریم کورٹ لایا گیا اور اب چیف جسٹس صاحب نے اپنی ریٹائرمنٹ کے قریب یہ فیصلہ کر دیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp