پاکستان میں اس وقت پیٹرول اور بجلی کے ٹیکسز کی وجہ سے عوام سڑکوں پر آنا شروع ہو چکے ہیں تاہم کچھ سیکٹرز ایسے بھی ہیں جن پر اگر حکومت ٹیکس عائد کردے تو اس سے غریب طبقے پر کوئی بوجھ بھی نہیں پڑے گا اور بجلی اور پیٹرول کی قیمتیں بھی کنٹرول کی جاسکیں گی۔
آئی ایم ایف اور حکومت کے مابین ہونے والے معاہدے میں بجلی اور پیٹرول کی قیمتیں بڑھانا بھی شامل تھا تاہم حکومت کے پاس یہ راستہ بھی ہے کہ وہ کچھ سیکٹرز پر ٹیکس لگا کر کم از کم بجلی اور پیٹرول پر عائد ہونے والے ٹیکسز کا حجم کم کردے تاکہ عوام جو ان کی قیمتوں میں اضافے سے پریشان حال ہے اس کا بوجھ کچھ کم کیا جاسکے۔
واضح رہے کہ آئی ایم کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال پاکستان کا ٹیکس ریونیو 11 ہزار 21 ارب تک جانے کا تخمینہ ہے جو اگلے مالی سال میں 13 ہزار 93 ارب روپے اور مالی سال 26-2025 میں ممکنہ طور پر 14 ہزار 738 ارب تک چلا جائے گا۔
وی نیوز نے کچھ ماہرین سے بات کی ہے تاکہ یہ جانا جاسکے کہ وہ کون سے سیکٹرز ہوسکتے ہیں جن پر ٹیکسز عائد کر کے بجلی اور پیٹرول پر لگنے والے ٹیکسز میں کمی کی جا سکتی ہے۔
ماہر معاشیات عابد سلہری نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ریئل اسٹیٹ، بلڈرز اور زراعت سے ہونے والی آمدنی پر ٹیکس ضرور عائد کیا جانا چاہیے تاکہ بجلی اور پیٹرول جس سے ملک کے غریب عوام براہ راست وابستہ ہیں ان پر ٹیکس کے بوجھ میں کمی کی جا سکے اس لیے وہ تمام لوگ جن کی آمدنی اور رہن سہن بہترین ہے ان سے براہ راست ٹیکسز لیے جانے چاہییں جس سے غریبوں کو فائدہ پہنچایا جانا چاہیے۔
اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سینیئر صحافی خلیق کیانی کہتے ہیں کہ دکاندار، ایگریکلچر اور ریئل اسٹیٹ سیکٹرز پر تو ٹیکسز ہیں ہی نہیں جبکہ کچھ دیگر سیکٹرز ایسے ہیں جن پر ٹیکسز تو ہیں لیکن وہ ادا نہیں کرتے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ہوٹلوں اور مختلف ریسٹورنٹس عوام سے تو ٹیکسز وصول کرتے ہیں مگر زیادہ تر خود حکومت کو ٹیکسز ادا ہی نہیں کرتے۔
خلیق کیانی نے کہا کہ ان سیکٹرز پر اس لیے ٹیکسز نہیں لگائے جاتے کیونکہ ان سے ملک کی با آثر شخصیات جڑی ہوئی ہوتی ہیں اور اس طاقتور طبقے کو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ باقی بجلی اور پیٹرول تو عام شخص سے منسلک ہے جس کی آواز کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔
معاشی امور پر گہری نظر رکھنے والے صحافی مہتاب حیدر نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے پاکستان میں ٹیکسز کا دائرہ ہی آج تک وسیع نہیں کیا۔
24 ’کروڑ میں سے 30 لاکھ افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں‘
مہتاب اکبر نے کہا کہ پاکستان کی آبادی 24 کروڑ ہے جس میں سے صرف 30 لاکھ افراد ہی ٹیکس ادا کرتے ہیں جو ایف بی آر کی ناکامی ہے کیوں کہ وہ ٹیکس اکٹھا ہی نہیں کر پاتا۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس لگانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس چیز کی کھپت میں کمی کی جا سکے لیکن پاکستان میں ٹیکس کا مطلب پیسے اکٹھے کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں ٹیکس بھی صرف تنخواہ دار یا پھر عام لوگ ہی دے رہے ہیں اور جب تک ملک میں ٹیکس کا نظام بہتر اور مساوی نہیں ہوگا تب تک یہ ملک نہیں چل سکتا۔
مہتاب اکبر نے بتایا کہ ٹیکس کی مراعات 2.6 بلین روپے ہیں کیوں ٹیکس نہیں لیے جاتے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ دنیا بھر کی طرح ریٹیل ٹریڈ، سروسز سیکٹر اور ایگریکلچرل انکم پر ٹیکس لیے جائیں اور اس کے علاوہ ٹیکس چوری کو پکڑنا بھی بہت ضروری ہے کیونکہ جب تک ملک کا امیر طبقہ ٹیکس نہیں دے گا اور ان کے ٹیکسز سے غریب کو ریلیف نہیں ملے گا اس ملک کو چلانا بہت مشکل ہے۔