رواں برس جون میں بھارتی فوج کے اہلکار پلوامہ شہر کی ایک مسجد میں داخل ہوئے اور ‘جے شری رام’ کے نعرے لگائے جس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی۔
یہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا مگر اگلے روز اس واقعے کی ‘خبر’ صرف چند اخبارات میں شائع ہوئی، جس میں محبوبہ مفتی کی جانب سے مذمتی بیان شامل کرتے ہوئے صرف یہ بتایا گیا تھا کہ بھارتی فوج تحقیقات کی غرض سے مسجد میں داخل ہوئی تھی۔
بھارت کے زیر تسلط جموں و کشمیر میں میڈیا کی سنسرشپ اور مثبت رپورٹنگ کا سلسلہ گزشتہ کئی برس سے جاری ہے۔ حقائق پر مبنی خبریں دینے والے صحافیوں پر سنگین الزامات کے تحت مقدمات درج کیے جا رہے ہیں اور انہیں گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے حال ہی میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے صحافیوں کے انٹرویوز پر مشتمل ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ ان انٹرویوز میں 90 فیصد سے زائد صحافیوں نے بتایا کہ حقائق پر مبنی خبریں دینے پر پولیس نے انہیں طلب کرکے سخت سوالات کیے۔
ایک صحافی نے جموں و کشمیر میں صحافیوں کو درپیش مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ کشمیر میں ایک صحافی کو ہر وقت اپنی جان کا خطرہ رہتا ہے۔ ‘ایسا لگتا ہے جیسے کسی جانب سے ایک گولی آئے گی اور میری زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا اور کسی کو کبھی بھی پتہ نہیں چلے گا کہ یہ کس نے کیا۔’
2018 میں ایک اخبار کے ایڈیٹر، شجاعت بخاری کو سرینگر میں ان کے دفتر کے باہر فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔ پولیس کے مطابق ان کے قتل کے ذمہ دار شدت پسند ہیں تاہم 5 سال گزرنے کے باوجود اس مقدمے کی سماعت شروع نہیں کی گئی ہے۔
ایک اور صحافی نے بتایا کہ کشمیر میں پولیس کا کسی صحافی کو وقتاً فوقتاً طلب کرنا ایک عام سی بات ہے اور کئی صحافیوں کو اپنی خبروں میں حقائق بیان کرنے پر گرفتار کر لیا جاتا ہے۔
‘ایک خبر کرنے پر مجھے پولیس کی جانب سے کالز آنا شروع ہو گئیں، وہ مجھ سے پوچھتے کہ میں نے یہ خبر کیوں کی اور مجھے بتاتے کہ وہ میرے خاندان کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں۔ پولیس کا رویہ مجھے خوفزدہ کر دیتا اور میں یہی سوچتا رہتا کہ غالباً وہ مجھے گرفتار کر لیں گے یا تشدد کا نشانہ بنائیں گے۔’
ایک اور صحافی نے بتایا کہ ہم اس خوف میں جی رہے ہیں کہ ہماری کوئی ایک خبر ہماری آخری خبر ثابت ہو سکتی ہے۔کشمیر میں صحافت دم توڑ چکی ہے۔ ایک دوسرے کشمیری صحافی نے بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ بھارتی فوج اور پولیس ہمیں اور ہمارے خاندان والوں کو دیکھ رہے ہیں۔
ایک صحافی نے بتایا کہ کشمیر میں صحافیوں سے مجرموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے، انہیں قوم مخالف، پاکستان کا حامی اور دہشت گردوں کا ساتھی سمجھا جاتا ہے۔ ’وہ (پولیس) اس بات کو نہیں سمجھتے کہ تمام فریقین سے بات کرنا اور ان کا مؤقف بیان کرنا ایک صحافی کی ذمہ داری ہے۔‘
مقبوضہ کشمیر کے صحافیوں کا خیال ہے کہ بھارتی حکومت وادی میں آزادی کی تحریکوں اور حریت پسندوں کے حوالے سے رپورٹنگ پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔کشمیر کے اخبارات کا انحصار حکومتی اشتہارات پر ہے، حکومت کی بات نہ ماننے کی صورت میں اخبارات کے اشتہار بند ہوجانے کا خدشہ لاحق رہتا ہے۔
مختلف کشمیری اخبارات کے ایڈیٹرز نے بھی تسلیم کیا کہ سنسرشپ پر عمل نہ کرنے سے انہیں اشتہار نہیں ملیں گے تو پھر اپنے ملازمین کو تنخواہیں کیسے دیں گے۔ سنسر شپ کے حوالے سے ایک رپورٹر کا کہنا تھا کہ کشمیر کے اخباروں میں پریس ریلیزوں کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہ گیا۔
’ہم سب سیلف سنسر شپ کر رہے ہیں۔ میں اپنی خبر کو پہلے ایک صحافی اور بعد میں ایک پولیس اہلکار کے طور پر پڑھتا ہوں۔ یہاں اب صحافت نہیں بلکہ حکومت کی تشہیر کی جاتی ہے۔‘
مقبوضہ کشمیر کے صحافیوں کی ایک بڑی تعداد 2018 میں صحافی آصف سلطان کی گرفتاری کے بعد سے خوفزدہ ہیں اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
واضح رہے کہ بھارتی فوج نے آصف سلطان کو حریت پسندوں کے بارے میں کالم لکھنے پر اگست 2018 میں گرفتار کرلیا تھا۔گرفتاری کے وقت ان کی بیٹی اریبہ کی عمر 6 ماہ تھی، جو اب 5 برس کی ہوچکی ہیں اور اپنے والد کی رہائی کا شدت سے انتظار کر رہی ہے۔
آصف سلطان کے ضیعف والد محمد سلطان اپنے بیٹے کی رہائی کے لیے پر امید تو ہیں مگر ان کی آواز میں تھکن نمایاں ہے۔’میں بوڑھا ہو چکا ہوں اوراریبہ کی ایک باپ اور دادا کی حیثیت سے پرورش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں مگر میں یہ کب تک کر پاؤں گا۔’