’بائیکیا پر ایک انجان آدمی کے ساتھ سفر کرتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی جرم کا ارتکاب کر رہی ہوں۔ اس شرمندگی کے ساتھ ایک خوف اور بے یقینی بھی گھر تک میرے ساتھ سفر کرتی ہے، کہ کہیں میرے ساتھ کچھ غلط نہ ہو جائے۔ اس پل صراط سے مجھے روز ہی گزرنا پڑتا ہے‘۔
یہ کہانی ارم (فرضی نام) کی ہے مگر ہر گھر سے نکلنے والی، مہنگائی سے بے بس خاتون روز اسی کہانی کا کردار بنتی ہے جب کم کرائے کی وجہ سے وہ اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے ٹیکسی کے بجائے بائیکیا کا انتخاب کرتی ہے۔
ملک میں پیٹرول کی قیمت نے ہر خاص وعام شخص بالخصوص ملازمت پیشہ خواتین کو بے حد متاثر کیا ہے۔ اس وقت ملک میں پیٹرول کی قیمت 305.36 روپے کے ساتھ ملک کی بلند ترین سطح پر ہے جس کی وجہ سے گھروں سے نوکریوں کے لیے نکلنے والی خواتین کا دفاتر تک بہ سہولت پہنچنا کسی بھیانک خواب سے کم نہیں ہے۔
اگرچہ پیٹرول کی قیمت نے مرد حضرات کو بھی متاثر کیا ہے مگر وہ خواتین جتنا نہیں متاثر نہیں ہوئے۔ مرد حضرات تو کسی سے لفٹ لے کر بھی چلے جاتے ہیں مگر خواتین ایسا نہیں کر سکتیں، انہیں عزت سے کہیں پہنچنے کے لیے مرد حضرات سے زیادہ پیسے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔
ارم ناصر (فرضی نام) راولپنڈی چکری روڈ کی رہائشی ہیں۔ انہوں نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اپنے گھر کی واحد کفیل ہیں۔ ان کی آمدن پر ان کے پورے گھر کا انحصار ہے۔
ارم کی ماہانہ تنخواہ 60 ہزار روپے ہے۔ ان کے مطابق گزشتہ برس تک وہ اس آمدن میں آرام سے گھر کے معاملات چلا لیا کرتی تھیں بلکہ کچھ دیگرخواہشات بھی پوری ہو جاتی تھیں۔ ان کا آفس بلیو ایریا میں ہے۔ لیکن گھر سے صدر میٹرو اسیشن تک تقریبا آدھا گھنٹہ لگ جاتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل تک وہ اپنے گھر سے میٹرو اسٹیشن تک اوبر سروس استعمال کرتی تھیں مگر پیٹرول کی قیمتوں میں آئے روز کے اضافے نے نہ صرف انہیں معاشی طور پر متاثر کیا ہے بلکہ ان کی عزت و نفس کو بھی ٹھیس پہنچائی ہے۔
’پیٹرول کی قیمت نے تو سب کو ہی متاثر کیا ہے مگر جتنی لڑکیاں متاثر ہوئی ہیں شاید ہی کوئی دوسرا متاثر ہوا ہو۔ اب حالات اس قابل نہیں ہیں کہ اوبر یا دیگر سروسز کا استعمال کیا جائے۔ میرے ابو 3 سال قبل انتقال کر چکے ہیں اور میں اکیلے گھر چلاتی ہوں۔ اب نوبت یہاں تک آچکی ہے کہ میں بائیکیا استعمال کرتی ہوں۔ اگر میرے ابو ہوتے تو مجھے یقین ہے کہ وہ مجھے یوں کبھی سفر نہ کرنے دیتے مگر باپ نہ ہو تو بہت سی مجبوریاں انسان سے وہ سب بھی کروا لیتی ہیں جو شاید اس نے کبھی سوچا بھی نہ ہو۔‘
ایک سوال پر ارم نے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب انہوں نے بائیکیا پہلی بار استعمال کیا تو وہ گھر آکر بہت روئیں، مگر پھر سوچا کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی تو موجود نہیں۔ ’’بائیکیا والے سے کہہ کر گھر سے تقریبا 10 منٹ کے فاصلے پر پہلے ہی اتر جاتی ہوں تاکہ کوئی دیکھ نہ سکے، اور راستے میں بھی بیگ اپنے اور بائیکیا ڈرئیور کے درمیان رکھتی ہوں تاکہ غلطی سے بھی اس سے کہیں ٹکرا نہ جاؤں، پورا راستہ خود کو تسلی دیتی ہوں کہ یہ دن بھی گزر جائیں گے۔ سوچتی تھی کہ اپنے لیے کوئی چھوٹی موٹی گاڑی لے لوں گی مگر جس انداز میں مہنگائی چل رہی ہے، یہ خواب پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا‘۔
سیمل ایک ویزا کمپنی میں نوکری کرتی ہیں۔ ان کا تعلق راولپنڈی راجہ بازار کے علاقے سے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اب تو ماہانہ آمدن جتنا آنے جانے کا کرایہ بن جاتا ہے۔ نوکری کرنے سے زیادہ نوکری پر جانا مشکل ہو چکا ہے مگر مجبوری ہے۔ نوکری چھوڑ دی تو اس بدترین معاشی صورتحال میں نئی جگہ بھی نوکری نہیں ملے گی۔ اسی مجبوری کے تحت بیشک 5 یا 7 ہزار ہی بچیں، نوکری نہیں چھوڑتی کیونکہ اس سے میرے بچوں کی اسکول کی فیس ادا ہو جاتی ہے۔
’میں اور میرے شوہر مل کر گھر چلا رہے ہیں۔ ہمارے 3 بچے ہیں۔ آج کے دور میں دو وقت کی روٹی پوری کرنا ہی بہت مشکل ہے، اس لیے بچے محلے کے ایک چھوٹے سے اسکول میں جاتے ہیں۔ پہلے تو میری تنخواہ میں سے بھی 10 ہزار بچ جایا کرتے تھے، مگر اب 5 یا 7 ہزار سے زیادہ بالکل نہیں بچتے، حالانکہ میں تقریبا آدھے گھنٹے کا فاصلہ طے کر کے میٹرو اسٹیشن تک جاتی ہوں کیونکہ میرا آفس شمس آباد سے آگے ہے۔ یہاں سے میٹرو تک پہلے چنگچی رکشہ 15 روپے لیا کرتا تھا پھر کرایہ 20 روپے ہوگیا اور اب 40 روپے۔ پھر میٹرو، اور اس سے آگے بھی چنگچی کا کرایہ۔ اسی طرح واپسی کا بھی سفر طے ہوتا ہے۔ بچوں کی سکول کی فیس کی خاطر آدھا گھنٹہ پیدل چل لتی ہوں، پورا دن سفر میں ہی گزر جاتا ہے جو کہ بہت تکلیف دہ ہے‘۔
کرن ایک گھریلو ملازمہ ہے۔ جو اپنے بچوں کو پالنے کے لیے 3 گھروں میں ملازمہ کے طور پر کام کرتی ہے۔ کرن نے بتایا کہ ویگنوں کے دھکے کھا کر کام کرنے جاتی ہوں۔ ان ویگنوں کے کرائے بھی تین گنا تک بڑھ چکے ہیں۔ کرائے تو بڑھ گئے ہیں، لیکن مالکان نے تنخواہ نہیں بڑھائی۔ سمجھ نہیں آتا کہ کیسے اخراجات پورے کروں۔ چند دن پیدل چل کر گئی، تاکہ آنےٓ جانے کا کرایہ بچ جائے مگر چل چل کر حالت اس قدر بری ہو جاتی ہے کہ وہاں پہنچ کر کام کرنے کی ہمت نہیں رہتی۔،
’یہی وجہ ہے کہ میں کافی بیمار ہو چکی ہوں۔ ٹیسٹ کروانے پر پتہ چلا کہ مجھے ٹائفائیڈ ہے۔ اپنی حالت دیکھ کر شدید افسوس ہوتا ہے کہ میں اتنی لاچار ہو چکی ہوں کہ بچوں کو 2 وقت کی روٹی کھلانا بھی مشکل لگ رہا ہے۔ بیماری کے سبب ویگنوں میں جاتے ہوئے ہڈیاں دکھتی ہیں، مگر مجبور ہوں، اسپیشل گاڑی پر نہیں جا سکتی۔‘
عائشہ ایک سافٹ وئیر ہاؤس میں کام کرتی ہیں، جن کی ماہانہ آمدن تقریبا 30 ہزار روپے ہے۔ عائشہ کہتی ہیں کہ وہ ہمیشہ سوچتی تھیں، نوکری کر کے وہ اپنے گھر والوں کو بھی سپورٹ کریں گی مگر ان کی ٹرانسپورٹ پر تقریبا 20 ہزار صرف ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کے گھر کے قریب کوئی ایسا روٹ نہیں ہے کہ وہ کسی لوکل گاڑی یا میٹرو بس استعمال کر سکیں۔
’مہینے کے آخر میں اکثر پیسے بالکل ختم ہوجاتے ہیں۔ اور گھر والوں سے لینے پڑتے ہیں، جس پر بے حد شرمندگی ہوتی ہے۔ انہیں سپورٹ کرنے کے بجائے الٹا ان سے پیسے لینے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ سوچتی ہوں کاش! لڑکا ہوتی تو بائیکیا یا پھر کسی سے لفٹ لے کر بھی جا سکتی تھی مگر مجبوری ہے، اس ملک میں کوئی مستقبل نظر نہیں آرہا۔‘