نیا پاکستان نمبر دو

منگل 5 ستمبر 2023
author image

شفاعت علی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

نیا پاکستان نمبر دو

پی ٹی آئی نے اعلان کیا کہ وہ کسی سے سیاسی انتقام نہیں لینا چاہتے، سیاست میں مذہبی نعرے لگا کر عوامی جذبات بھڑکانے سے اجتناب کرنا چاہتے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ نے اعلان کیا کہ وہ سیاست اور سیاسی معاملات سے مکمل کنارہ کشی کر رہی ہے۔ فوج کے ذیلی ادارے وزات داخلہ کو جوابدہ ہونگے۔ سولین اداروں میں اسٹیبلشمنٹ مداخلت کو بریک لگنے لگا۔

ن لیگ نے اعلان کیا کہ وہ اپنے دور میں مکمل ہونے والے بجلی کے ایل این جی منصوبوں سے پیدا ہونے والے کیپیسٹی پیمنٹ بحران کی پوری ذمہ داری قبول کرتے ہیں اور بحران قابو کرنے کے لیے حکومتی معاون بننے کو تیار ہیں۔

پیپلز پارٹی نے اعلان کیا کہ وہ سندھ میں گورننس،  سیاسی بھرتیوں سے لے کر وڈیرہ شاہی کی پشت پناہی تک، تمام معاملات کے سدھارنے کی ذمہ داری بھی لے گی اور درستگی بھی کرے گی۔ اداروں کو سیاسی اور افسر شاہی اثر و رسوخ سے پاک کرنے کا کام شروع ہوا چاہتا ہے۔ شیروں کو جگاڑ نہیں نظام کے تحت چلانے کا آغاز ہونے لگا ہے۔

مذہبی اور قوم پرست جماعتوں نے اعلان کیا اور ضمانت دی کہ وہ محظ قتل و غارت، دنگے فساد کو قانونی جواز فراہم کرنے والی قانون سازی نہیں چاہیں گے بلکہ سیاسی چالوں کو مذہبی جواز فراہم کرنے والے عناصر کے خلاف عوام کو مطلع رکھیں گے(بھڑکائیں گے نہیں)۔

فیصلہ ہوا کہ کوئی سیاسی جماعت معیشت اور قومی پالیسی پر سیاست نہیں کرے گی۔

بلوچستان کے سیاسی اور غیر سیاسی عناصر نے آپس میں مل بیٹھ کر معاملات کو سلجھانے کا فیصلہ کیا، لاپتا افراد عدالتوں میں پیش ہونے لگے، اسمگلنگ سے ہٹ کر بلوچ نوجوانوں کو روزگار دینے کا سلسلہ شروع ہونے لگا۔ انویسٹر حضرات کو بلوچستان کے وسائل ہی نہیں، بلوچوں کے مسائل بھی سنائے جانےلگے۔

تاجر، آڑھتی، زمیندار، پراپرٹی سیکٹر نے پوری طرح ٹیکس نیٹ میں آنے کا اعلان کر دیا۔ حکومت نے کیش پر چلنے والی اکانومی پر اصلاحات کا اعلان کر دیا۔ ڈیمانیٹازیشن کا آغاز ہوا۔ لاکروں میں پڑے دفینے بینکوں میں ڈپازٹ ہونے لگے۔ نان فائلر کا تصور ختم ہو گیا۔ محصولات کا نظام ڈائریکٹ ٹیکس پر منتقل ہو گیا۔ ٹیکس اصلاحات کا آغاز ہونے لگا۔

عدالتی نظام نے خود احتسابی پالیسی کا اعلان کیا۔ وکیلوں کے لائسنس طریقہ کار کو سخت بنا دیا گیا۔  ججوں سمیت بیوروکریسی اور سرکاری افسران کی مراعات واپس لے لی گئی۔ ججوں نے عدالتی اصلاحات کے لیے بدنام زمانہ عدالتی فیصلوں کو ریویو کرنا شروع کر دیا۔ عدالتی ساکھ کو نقصان پہنچانے والے  اور سیاسی نسبت پر فیصلے کرنے والےججوں کے نام عدالتی دیواروں سے ہٹا دیے گئے۔

نصاب میں خود ساختہ تاریخ پڑھانے کا خاتمہ ہوا۔ لوگوں کو خود کو بلاوجہ غیر مقامی(افغان،عرب،ترک، فارسی، وسطی ایشیائی) کہلوانا چھوڑ دیا۔

نصاب میں دیگر مذاہب جیسے ہندو، عیسائی، سکھ، پارسی کو دشمن کہنے کا سلسلہ بند ہوا۔ لوگوں کو اسلامی اسٹیٹ (جو پاکستان نہیں ہے) اور مسلمان ریاست (جو پاکستان ہے) کا فرق سمجھ میں آنے لگا۔

 مذہبی طبقے نے مساجد کی اصلاحات کا سلسلہ شروع کیا۔ مساجد کے اندر فرقہ بازی کی بیخ کنی ہونے لگی۔  مائک /منبر لائسنس کا اجراء ہو گیا۔ نفرت انگیزی پھیلانے والے افراد کا منبر لائسنس منسوخ کرنے کا اصلاحات نافذ ہوئی۔ مساجد کو جن اوقات میں تالا لگتا تھا ان اوقات میں مخیر اداروں کو مساجد میں اسکول چلانے کی اجازت دی گئی۔

 بلدیاتی نظام طاقتور ہوا۔ بلدیاتی ترقیاتی کام بلدیاتی محصولات سے ہونے لگے۔ کونسلر ٹیکس جمع کرنے لگے، ہڑتالوں پر اکسانے کے بجائے لوگوں کو اختیار دیا جانے لگا۔  لوگوں کو یہ احساس دلا رہا تھا کہ کوئی قوم کی عزت قانون توڑنے میں نہیں بلکہ قانون کے تابع رہنے میں ہے۔

پھر میری آنکھ کھل گئی۔

میں مسکرایا، ٹی وی لگایا۔

سامنے روبوٹ نما شخص قومی کھیل پر رٹی رٹائی کمنٹری کر رہا تھا۔

پھر یو ٹیوب کھولا وہاں بھی یہی کھیل جاری تھا۔

پھر ٹوئٹر کھولا، وہاں پر بھی کمنٹری جاری تھی۔

’تیرا چیف میرا چیف، تیرا جج میرا جج،  تیرا افسر میرا افسر، تیرا دین میرا میرا دین ، تیرا سی ایم میرا سی ایم، تیرا لیڈر میرا لیڈر، زندہ باد مردہ باد، غدار ہے غدار ہے،کافر ہے کافر ہے‘۔

میں نے سوچا یہ وہ کھیل ہے جو اس ملک کے قیام سے بھی پہلے سے جاری ہے، یہ وہ بھیانک لوری ہے جسے سن کر اس قوم کے اندر انسانیت سو جاتی ہے۔

میں نے لاحول پڑھی اور فون بند کر کے پھر آنکھیں موند لیں کہ شاید خواب واپس وہیں سے شروع ہو جائے۔ خواب بیہودہ ہی صحیح، مزہ تو آ رہا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp