جب نور جہاں ترانہ گا کر رونے لگیں

جمعہ 6 ستمبر 2024
author image

اکمل شہزاد گھمن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

1965 کی پاک بھارت جنگ کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کے موقف سے ہٹ کر ہماری تاریخ میں ایسا واقعہ  ہے جس میں پاکستانی قوم ایک موقف پر یک جا ہو گئی تھی۔ ہمارے زمانہِ طالب عملی میں تو ایک اسی جنگ کا ذکر نصابی کتابوں میں تھا، جسے ہم  آج بھی یومِ دفاع کے طور مناتے ہیں۔1971 کی جنگ کا تو بس گول مول سا  ذکر ملتا تھا۔ وہ تو  بڑے ہوکر خود  تاریخ پڑھی تو خبر ہوئی کہ ہمارے ساتھ کیا ہاتھ ہوگیا تھا اور ہم خود کیا حماقتیں کرتے رہے، بہرحال یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔

65 کی جنگ کے حوالے سے ہمارا موقف ہے کہ رات  کے سناٹے میں ازلی دشمن بھارت جس نے پاکستان کو کبھی دل سے تسلیم ہی نہیں کیا تھا، چُپکے سے بغیر کسی وارننگ کے پاکستان پر حملہ آور ہوگیا۔ جب کہ وکی پیڈیا پر لکھا ہوا ہے کہ ’اگست 1965 میں پاک بھارت سرحدی  جھڑپیں شروع ہوگئیں جب بھارتی (مقبوضہ ) کشمیر میں پاکستانی فوجی آپریشن جبرالٹر کے نام پھر داخل ہوگئیں‘۔

وکی پیڈیا کسی ملک یا ادارے کا متفقہ موقف نہیں ہوتا بل کہ اس کو کوئی بھی ایڈٹ کر سکتا ہے، جو پہلے اور تواتر سے وہاں اپنا موقف دہرائے گا یا سامنے رکھے گا وہی تلاش کی شکل میں سب کے سامنے آئے گا۔ مطلب یہ پاکستان کی طرف سے کم زوری ہے کہ ہم جنگِ ستمبر کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر ایک عالمی فورم پر مناسب طریقے سے پیش نہیں کر سکے۔

آپریشن جبرالٹر کے حوالے سے تو جوہر ٹاؤن لاہور میں اپنے ساتھ واک کرنے والے کرنل (ر) شفیع مرحوم یاد آتے ہیں جو کہا کرتے تھے کہ 64 میں، ان لوگوں میں شامل تھا جو سرحد پار کر کے گئے تھے۔ کرنل شفیع کشمیر کے رہنے والے تھے۔ زبان حُلیے اور لبُ لہجے کی وجہ سے وہ اس مقصد کے لیے بہت کار آمد تھے۔ بد قسمتی سے  مقامی لوگوں نے بھی ساتھ نہ دیا لہذا یہ آپریشن ناکام رہا اور اس کا نتیجہ مکمل جنگ کی شکل میں نکلا۔

5 اور 6 ستمبر 1965 کی درمیانی رات بھارت نے پاکستان پر مکمل جنگ مسلط کر دی جس کے لے پاکستان بالکل تیار نہیں تھا۔ میرے والد محترم چوہدری احمد خان گھمن بتاتے ہیں کہ ’سمبڑیال سیالکوٹ شہر اور وزیر آباد کے درمیان واقع ایک قصبہ ہے۔ اسی کے نواح میں ہمارا گاؤں لوپو والی ہے۔ بھادوں کے آخری دن تھے۔ رات میں نے گاؤں سے تھوڑے فاصلے پر اپنی زمینوں پر مکئی کی فصل کو پانی لگایا ہوا تھا۔ جونہی رات کے 12 بجے تو چھمب جوڑیاں کی جانب توپیں گرجنے لگیں، تو سمجھ آگیا کہ ہندوستان نے پاکستان پر حملہ کر دیا ہے‘۔ یاد رہے کہ آج بھی ہمارے گاؤں سے، موسم صاف ہو تو دن میں کشمیر کے برف پوش پہاڑ اور رات کو جموں کی پہاڑی سڑکوں پر جگمگاتی بتیاں نظر آتی ہیں۔ صبح خوشی نائی مرحوم کے ریڈیو پر صدر ایوب کی دن  2 بجے تقریر سُنی جس میں وہ کہہ رہے  تھے:

“پاکستان کی 10 کروڑ عوام جن کے دل کی دھڑکن میں لاالہ اللہ محمد رسول اللہ کی صدا گونج رہی ہے، اُس وقت تک چَین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک دشمن کی توپیں ہمیشہ کے لیے خاموش نہ ہوجائیں۔ ہندوستانی حکمران شاید ابھی نہیں جانتے کہ انھوں نے کس قوم کو للکارا ہے‘۔

ریڈیو پاکستان کے لائبریرین مرحوم اعجاز صاحب نے راقم کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’میں عارضی ملازم کے طور پر ریڈیو لائبریری میں کام کرتا تھا۔ یہ تو علم ہو چکا تھا کہ رات بھارت پاکستان پر حملہ کر چُکا ہے۔ صبح  ساڑھے 7 بجے میں ریڈیو پہنچا  پروگرام نشر ہونے کی تیاری ہو رہی تھی۔ میں نے کیو شیٹ بنائی تو سب سے پہلا  ترانہ  شوکت علی، مسعود رانا اور ساتھیوں کی آواز میں ’جاگ اُٹھا ہے سارا وطن، ساتھیو مجاہدو‘ شیڈول کیا۔

اس زمانے میں کیو شیٹ میں تبدیلی جُرم تصور ہوتا تھا۔ عزیز الرحمان صاحب کی ڈیوٹی مائیکرو فون پر تھی  جب کہ خالد اکرام ڈیوٹی آفیسر تھے۔ وہ کہنے لگے ’اسٹیشن  ڈائریکٹر سے اجازت  لے لیں‘۔

میں نے کہا ’اب وقت نہیں ہے‘ ، آپ نشر کریں، میری ملازمت عارضی  ہے، نکل بھی گیا تو خیر ہے‘۔

 جوں جوں ترانے نشر ہوتے گئے لوگ ریڈیو اسٹیشن کے باہر جمع ہونا شروع ہوگئے۔

یاد رہے کہ عموماً  فلم سے پہلے اس کے گانے  ریلیز ہو جاتے ہیں۔ گو کہ  اداکار شان کے والد مرحوم  ریاض شاہد کی لکھی ہوئی اور جمیل اختر کی ڈائریکشن میں بنی فلم ’مجاہد‘ فلم 10 ستمبر 1965کو ریلیز ہوئی جس میں سدھیر، محمد علی، دیبا، مینا شوری، اسلم پرویز اور صابرہ سلطانہ جیسے اداکار تھے۔ اس فلم کے گیت نگار اپنے دور کے معروف ترین شاعر تنویر نقوی، فیاض ہاشمی اور حمایت علی شاعر تھے۔ یہ ترانہ بھی حمایت علی شاعر ہی کا لکھا ہوا تھا جب کہ موسیقی خلیل احمد کی تھی ۔

 ملکہِ ترنم  میڈم نور جہاں نے  اپنے متعدد انٹرویوز میں بیان کیا ہے ’میں نے سوچا میں اس مشکل وقت میں کیسے اپنے ملک کے کام  آ سکتی ہوں۔ میرے پاس نامور موسیقار حسن لطیف بھائی بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے ریڈیو فون کیا اور بتایا کہ میں نور جہاں بات کر رہی ہوں اور  اپنے وطن کے لیے اپنی آواز کا نذرانہ پیش کرنا چاہتی ہوں۔ مگر انہوں نے یقین نہیں کیا کہ میں واقعی نور جہاں ہوں لہذا فون بند کردیا‘۔

دوسری طرف 65 کی جنگ کے دوران تمام ترانوں کے پروڈیوسر اعظم خان کہتے ہیں کہ شمس الدین بٹ صاحب اسٹیشن ڈائریکٹر تھے، جب انہیں میڈم کا فون آیا تو انہوں سمجھا کہ اک افراتفری کا عالم ہے، یہ کوئی ایسے ہی مذاق کر رہا ہے۔

تھوڑی دیر بعد میڈم نور جہاں خود ریڈیو آگئیں تو اعظم صاحب کی ڈیوٹی لگی کہ وہ میڈم کے ساتھ کام کریں۔

اعظم ملک  صاحب کہتے ہیں 6 ستمبر ہی کو صوفی تبسم صاحب نے لکھا اسی وقت، سلیم اقبال نے دھن بنائی اور اسی دن میڈم نے یہ گانا گایا:

’میریا  ڈھول سپاہیا، تینوں رب دیاں رَکّھاں‘ جب یہ گانا نشر ہوا تو دھوم مچ گئی۔

روز اسی طرح ہم ایک گانا تیار کرتے تھے۔ دوسرے پروڈیوسر اور فن کار بھی اسی طرح پروگرام بنانے میں مصروف رہتے۔ رات  کو گُڑ اور خشک چنے لے کر ہم ریڈیو میں بنے مورچوں میں اپنی باری گزارتے۔

تیسرے، چوتھے روز جب پتا چلا کہ محاذ پر ہمارے کچھ جوان شہید ہوئے ہیں تو پھر صوفی صاحب نے یہ گیت لکھا:

’ایہہ پُتر ہٹاں تے نئیں وکدے‘

اس گانے کی دُھن راگ بھیرویں میں میری ہی بنائی ہوئی ہے۔ جب میڈم یہ گانا گا چُکیں، ہم سب  نے تیار ہونے کے بعد سُنا تو میں بھی رو رہا تھا، میڈم اور صوفی صاحب بھی رو رہے تھے۔

1965 کی جنگ نے پوری قوم کو  متحد کر دیا تھا۔ ریاض محمود اس زمانے میں ریڈیو پر ’شہر کی صوتی تصویر‘ کے نام سے پروگرام کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا ’جنگ کے دوسرے دن دفتر آیا تو دیکھا، مرکزی دروازے پر بہت ہجوم ہے، دیکھا تو حبیب جالب بھی وہاں کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہا’ دو تین چیزیں ہو گئی تھیں، سوچا ریکارڈ کروا دوں مگر سیکورٹی والے اندر نہیں جانے دے رہے‘۔

میں انہیں اپنے ساتھ سٹوڈیوز میں لے گیا اور تین چیزوں کی یکارڈنگ کر لیں۔ ان میں ایک کلام تھا:

’زندہ باد اے چین و انڈونیشیا

تم سے قائم ہے امنِ ایشیا‘

دستور کے مطابق جب میں نے ان سے کانٹریکٹ دستخط کروانا چاہا تا کہ انہیں کچھ معاوضہ مل سکے تو انہوں نے  کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے دستخط کرنے سے انکار کر دیا اور یہ کہتے ہوئے چلے گئے

’ نہ نہ، میں اس کے پیسے لوں گا بابا؟ ایسی بات نا مجھ سے کرو‘۔

سینئر اور ورسٹائل اداکار خالد عباس ڈار اس زمانے میں گورنمنٹ کالج لاہور میں تھرڈ ایئر کے طالب علم تھے لیکن بطور فن کار وہ اپنا آپ منوا چُکے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ  استاد سلامت  نزاکت، استاد امانت اور فتح علی، شوکت علی، فریدہ خانم، بلقیس خانم، زاہدہ سلطانہ، منظور جھلا، سائیں اختر، روشن آرا بیگم، مسعود رانا اور طفیل نیازی سمیت اس وقت کے ہر فن کار نے اپنے فن کے ذریعے اس جنگ میں اپنا حصہ ڈالا۔  فن کارمحاذِ جنگ پر جا کر اپنے فن  سے فوجی جوانوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے اور ان کے جذبوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے رہے۔

اعجاز بٹالوی آج کی بات کرتے تو اشفاق احمد تلقین شاہ غرضیکہ شاعر، ادیب، گلو کار، موسیقار، اداکار، سب فن کار سٹیج، ٹی وی ریڈیو کے محاذ پر ڈٹے ہوئے تھے۔ اخبارات لوگوں کا حوصلہ بڑھا رہے تھے۔ عوام محاذ پر خود جا کر دشمن سے دو دو ہاتھ کرنا چاہتی تھی۔

بریگیڈر (ر)حامد سعید اختر جو خود 65 کی جنگ میں چونڈہ کے محاذ پر  لڑ رہے تھے۔ انہوں نے لاہور میں الحمرا اوپن ائر ہالز قذافی سٹیڈیم  میں آئی ایس پی آر اور ریڈیو پاکستان کے زیرِ اہتمام  یومِ دفاع  چھ ستمبر  کے حوالے سے منعقدہ بہت بڑی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’عوام اور جوانوں  میں جوش و جذبہ اس قدر تھا کہ کم افرادی قوت کے باوجود ہم نے دنیا کی تاریخ میں  ٹینکوں کے بہت بڑے حملے کو روک لیا۔ جس کے بارے میں مشہور ہے کہ جوان دشمن کے ٹینکوں کے آگے بم باندھ کر لیٹ گئے تھے،ایسا نہیں تھا۔ یہ غلط روایت ہے۔ یہ بات عوام میں صرف پاکستان کی فوج کے جوانوں کی اس بہادری کی وجہ سے مشہور ہوگئی جو انہوں نے چونڈہ کے محاذ پر ٹینکوں کا حملہ روک کر دکھائی۔

میری والدہ بتاتی ہیں کہ  پورے گاؤں میں ایک ہی  ریڈیو حافظ للاری (رنگ ریز) کے پاس تھا۔ وہ رات کو ماموں اقبال کی بیٹھک کے گلی کی طرف تھڑے پر ریڈیو آن کر کے نظام دین کا پروگرام ’سوہنی دھرتی‘ لگا دیتا جس میں عوام اور فوجی جوانوں کا جوش و جذبہ بڑھایا جاتا۔ گلی  بچوں بڑوں سے بھر جاتی تھی۔

چھ ستمبر 1965 کی پاک بھارت جنگ کے حوالے سے  بہت سے لوگوں کی ایسی یادیں ہیں۔

چھ ستمبر 1965 کا دن  پاکستانی قوم  یومِ دفاع کے طور پر مناتی ہے۔  بہر حال جنگیں  مسائل کا حل نہیں ہوتیں، آخر کار معاملات کے حل کے لیے مذاکرات کی میز پر ہی بیٹھنا پڑتا ہے۔ پاک بھارت جنگ کا معاملہ بھی تاشقند میں مذاکرات کی میز پر ہی نپٹا۔ دعا ہے کہ کوئی قوم اور ملک جنگ کا شکار نہ ہو۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اکمل گھمن تحریر و تحقیق کی دنیا کے پرانے مسافر ہیں۔ 'میڈیا منڈی' اور پنجابی کہانیوں کی کتاب 'ایہہ کہانی نہیں' لکھ کر داد وصول کر چکے ہیں۔ بی بی سی اردو سمیت مختلف اداروں کے ساتھ لکھتے رہے ہیں۔ آج کل وی نیوز کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp