جنرل عاصم منیر کی بزنس مینوں سے ملاقات کے چرچے ہیں۔ پاکستان میں 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آئے گی۔ اسمگلنگ کو روکا جائے گا۔ نجکاری ہو گی۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات 25,25 ارب ڈالر پاکستان میں لگائیں گے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے جنرل عاصم منیر نے کہا کہ میں ایک دو ارب ڈالر کی بات کرنے نہیں آیا، پاکستان میں سعودی بڑی سرمایہ کاری کریں۔ فارن ریزرو مستحکم رکھنے کے لیے بھی 10 ارب ڈالر دیں۔ یہ 10 ارب ڈالر روپوں میں واپس کیے جائیں گے۔
یہ سب وہ سرخیاں ہیں جو آرمی چیف کی ملاقات کے حوالے سے سامنے آئیں۔ بجلی کے بل زیادہ آئے تو انوار الحق کاکڑ نے ریلیف دینے کا اعلان کیا۔ اس اعلان پر عمل کے لیے پھر اجلاس ہوتے رہے۔ پھر پتا لگا کہ آئی ایم ایف کی منظور درکار ہے۔ بلوں کی صرف قسطیں ہو سکیں گی۔ پھر خبریں آئیں کہ حکومت کا پروپوزل آئی ایم ایف نے مسترد کر دیا۔ حکومت کے ترجمانوں نے کہا کوئی مسترد نہیں کیا۔
نگران وزیر خزانہ سے منسوب بیان میڈیا پر چل گیا کہ مجھے پتا نہیں تھا کہ حالات اتنے خراب ہیں۔ اس بیان کی وضاحتیں آئیں لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ اسٹاک مارکیٹ کریش کر گئی۔ ڈالر نے بھی فلائٹ پکڑ لی۔
اس کے بعد ڈیمیج کنٹرول والی حوصلہ افزا اور امید بڑھانے والی بزنس مینوں سے یہ ملاقاتیں ہوئیں۔ اسٹاک مارکیٹ سنبھل گئی، روپیہ نے سکھ کے ایک دو چھوٹے چھوٹے سانس لیے۔ نگران حکومت نے الحمدللہ اتنی تیزی سے اپنا اعتبار کھویا ہے کہ سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ جب ہم فوج کی سیاست حکومت کے معاملات میں مداخلت پر بات کرتے ہیں تو ایک نظر اس صورتحال پر بھی ڈالیں کہ آرمی چیف کے پاس کیا چوائس تھی؟ وہ بیٹھے دیکھتے رہتے؟
مزید پڑھیں
پاکستان کی سیکیورٹی پالیسی دستاویز 2022 سے 2026 کے لیے پبلک کی گئی تھی۔ اس میں اکنامک سیکیورٹی، ٹریڈ، انویسٹمنٹ، کنیکٹویٹی، فارن ریزرو، انرجی سیکیورٹی، فوڈ سیکیورٹی اور فسکل مینیجمنٹ شامل تھیں، یہ سب خیر سے سیکیورٹی پالیسی کا حصہ ہیں۔ یہ دستاویز نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر ڈاکٹر معید یوسف اور سیکریٹری نیشنل سیکیورٹی ڈویژن کے انجینیئر عامر حسن کے دستخطوں سے جاری ہوئی تھی۔ جب یہ سب کچھ سیکیورٹی پالیسی کا حصہ ہے تو آرمی چیف کا سرگرم ہونا بنتا ہے۔ یہ سیکیورٹی پالیسی پی ٹی ائی حکومت میں جاری کی گئی تھی۔
اب آتے ہیں ذرا مشکل باتیں کرتے ہیں۔ سرمایہ ہمیشہ پرافٹ کے پیچھے جاتا ہے۔ یہ باتوں میں نہیں آتا۔ پرافٹ دکھائی دے گا تو بھاگا آئے گا۔ نہیں دکھائی دے گا تو جو مرضی کرلیں نہیں آئے گا۔
ٹیکنو کریٹ اپنی فیلڈ کے ایکسپرٹ ہو سکتے ہیں۔ یہ لوگوں کے مزاج شناس نہیں ہوتے۔ پبلک ڈیلنگ نہ فوج کی مہارت کا شعبہ ہے نہ کسی ماہر معیشت، بنکر یا انجینیئر کا۔ پبلک ڈیلنگ سیاستدانوں ہی کا کام ہے۔ سیاستدان ہی لوگوں کو کوئی امید دلا کر کسی دور کی بتی پیچھے لے جا سکتا ہے۔ لوگ جن کی سنتے مانتے ہیں ان میں سے ایک اندر بیٹھا دیسی ککڑ دیسی گھی میں تل کر کھاتا منظر سے غائب ہے اور دوسرا لندن بیٹھا۔
جسے سیاست آتی ہے اس کا نام آصف زرداری ہے۔ اس کو اندرون سندھ سے باہر ووٹ نہیں ملتا۔ خیر سے ایکسپورٹ بھی آصف زرداری کے دور صدارت میں ہی ریکارڈ بلندیوں پر گئی۔ ان کی واپسی کی خواہش ہی کر سکتے ہیں لیکن ان کو لانا کسے ہے؟
فری اینڈ فیئر الیکشن کروا لیں کپتان کی مقبولیت کی ساری کہانیوں پر اعتبار کر لیں۔ مان لیتے ہیں وہ جیت گیا، آ گیا دو تہائی اکثریت کے ساتھ، حکومت بنا لی۔ اب تو پرویز خٹک، بزدار اور محمود خان سمیت بہت سارے دوڑ چکے۔ یہ حکومت کتنے منٹ چلے گی اور کیا پرفارم کرے گی؟ سال پہلے یہی پارٹی حکمران تھی کون سی دودھ شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں۔
میاں محمد شہباز شریف نے جس طرح نوازشریف کا سیاسی سرمایہ اپنی پنجاب اسپیڈ سے ٹھکانے لگایا ہے۔ جیسے سب کو سمجھ آ گئی ہے کہ نوازشریف خود نہ ہوں تو نہ شہباز اسپیڈ کی کوئی حقیقت ہے نہ ڈار اکنامکس کی۔ الیکشن اب سامنے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس نگران حکومت کو دیکھ کر تو ہو سکتا سر کا دل کر رہا ہو کہ رات کو ہی الیکشن کروا دوں۔
بظاہر بری دِکھتی صورتحال ہرگز بری نہیں ہے۔ سیاسی استحکام الیکشن سے آ جانا چاہیے۔ معیشت خود مستحکم ہونا شروع ہو جائے گی۔ ہمارا سسٹم جو 73ء کے آئین نے ہمیں دیا۔ وہ مشرف اور ضیا کا مارشل لا سہہ گیا۔ افغان جنگ سہہ گیا، شدت پسندی، دہشت گردی اور علیحدگی کی تحریکیں سہہ گیا۔ یہ برے معاشی حالات سہہ گیا۔ عدلیہ بحالی تحریک اور اس کے نتائج سہہ گیا۔ تبدیلی کا آنا اور پھر جانا بھی سہہ گیا۔ سیاست میں مداخلت کے شوقین جج بھی سہہ گیا۔ یہ نظام سب کو فارغ کرتا چلتا آ رہا ہے۔ الیکشن ہو جائیں تو بہت سی رکاوٹیں دور ہو جائیں گی۔ ہمارا سسٹم بڑا دلچسپ ہے یہ سب کو موقع دیتا ہے ایک سے زیادہ بار۔ نوازشریف کو چوتھی بار موقع ملا تو کپتان کو بھی دوسرا چانس ضرور ملے گا۔