کسی بھی سرکاری ملازم کے خلاف محکمانہ کارروائی ریٹائرمنٹ کے 2 سال کے اندر ہی ممکن بنائی جاسکتی ہے، سپریم کورٹ نے 5 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ تفصیلی فیصلہ جسٹس مسرت ہلالی نے تحریر کیا ہے۔
محمد افضل انجم طور راول ڈیم ڈویژن اسلام آباد میں چیف انجینئر کے عہدے پر تعینات تھے، محکمہ آبپاشی پنجاب نے محکمانہ کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے ایگزیکٹو انجینئر کو ریٹائرمنٹ کے 3 سال بعد شوکازنوٹس جاری کیا۔
سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلہ کے مطابق ملزم پر مس کنڈکٹ اور کرپشن کے الزامات عائد کیے گئے تھے، تحقیقاتی کمیٹی نے نومبر 2020 میں یہ تجویز دی کہ ایگزیکٹو انجینئر کی پینشن سے 55 لاکھ روپے ریکور کیے جائیں
’ٹربیونل نے فروری 2022 میں محکمانہ آرڈر کالعدم قرار دے کر پینشن اور تمام مراعات ادا کرنے کا حکم دیا، عدالت کے سامنے یہ سوال تھا کہ کیا کسی شخص کی ریٹائرمنٹ کے تین سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد محکمانہ کارروائی ہو سکتی ہے یا نہیں۔‘
پنجاب ایمپلائز ایفی شیئنسی، ڈسپلن اینڈ اکاؤنٹیبلٹی ایکٹ مجریہ 2006 کی شق 21 کے تحت ملازم کی ریٹائرمنٹ کے 2 سال کے اندر محکمانہ کارروائی کی جا سکتی ہے، سپریم کورٹ ایک فیصلے میں اصول طے کر چکی ہے کہ پیڈا قانون کا مقصد اچھی طرز حکمرانی اور سرکاری ملازمین میں خود احتسابی کا ہدف حاصل کرنا ہے۔
’یہ قانون حاضر سروس ملازمین اور ان ریٹائر ملازمین کے خلاف محکمانہ کارروائی سے متعلق ہے جن کے خلاف کارروائی ریٹائرمنٹ کے ایک سال کے اندر اندر کی گئی ہو، مذکورہ ملازم 10 جنوری 2017 کو ریٹائر ہوا جبکہ اس کے خلاف محکمانہ کارروائی 24 فروری 2020 کو شروع ہوئی۔‘
سپریم کورٹ کے فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ ملازم کے خلاف کاروائی پیڈا ایکٹ 2006 کی خلاف ورزی ہے، سروس ٹربیونل نے قانون کے مطابق درست فیصلہ دیا ہے لہذٰا اپیل مسترد کی جاتی ہے۔