سوات یونیورسٹی خیبر پختونخوا نے یونیورسٹی میں ہراسانی کے خلاف وائس چانسلر کو درخواست دینے والے طالب علم کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے والے 16 طلبا کو یونیورسٹی سے نکال دیا ہے۔ انتظامیہ کا موقف ہے کہ طلبا کو رولز کی خلاف ورزی پر نکالا گیا ہے۔
اسسٹنٹ رجسٹرار اکیڈمیس سوات یونیورسٹی کی جانب سے جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق طلبا کو رولز کی خلاف ورزی پر ایک سال کے لیے نکالا گیا ہے۔ نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے کہ طلبا کے خلاف ایکشن چیف proctors کی جانب سے انکوائری رپورٹ کی بنا پر لیا گیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق طلبا ایک سال کے لیے امتحان بھی نہیں دے سکیں گے۔
طلبا احتجاج کرکے تعلیمی ماحول خراب کرنے میں ملوث تھے، انتظامیہ
ترجمان سوات یونیورسٹی نے وی نیوز کو بتایا کہ نکالے گئے طلبا نے کیمپس میں احتجاج کیا تھا اور پرامن تعلیمی ماحول کو خراب کر رہے تھے۔ مزید بتایا کہ ان کے خلاف ایک کمیٹی بنی تھی اور کمیٹی رپورٹ میں 16 طلبا ملوث پائے گئے جس پر ان کے خلاف ایکشن لیا گیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے ان طلبا کو موقع بھی دیا کہ ان کے والدین بیان حلفی دے کر یقین دہانی کرائیں کہ دوبارہ ایسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیں گے تو ان کی سزا کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض طلبا کے والدین وائس چانسلر سے ملنے آئے ہیں ۔
نکالے گئے طلبا میں سے 5 کا تعلق شعبہ صحافت، 3 کا ٹوریزم ،7 کا شریعہ اینڈ لا اور ایک طالب علم کا تعلق بائیو ٹیکنالوجی اینڈ مائیکرو بیالوجی سے ہے۔
معاملہ شروع کیسے ہوا تھا؟
سوات یونیورسٹی میں 9 اگست کو طلبا نے ساتھی طالب علم پر پولیس کی جانب سے ایف آئی آر اور گرفتاری کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ احتجاجی طلبا کا موقف تھا کہ شعبہ صحافت کے طالب علم کو پولیس نے یونیورسٹی انتظامیہ کی ایما پر گرفتار کیا جس نے وائس چانسلر کو یونیورسٹی میں طالبات کو مبینہ جنسی ہراساں کرنے کے خلاف درخواست دی تھی۔ جبکہ انتظامیہ اور پولیس کا موقف تھا کہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور دیگر حکام کو مبینہ طور دھمکی دینے اور ویڈیو بنانے پر یونیورسٹی انتظامیہ کی شکایت پر طالب علم کو گرفتار کیا تھا۔
9 اگست روز محمد جواد نامی شعبہ صحافت کے طالب علم کی گرفتاری کے خلاف administration block کے سامنے جمع ہوکر احتجاج کیا تھا۔ اور وی سی اور انتظامیہ کے خلاف نعرہ بازی کی اور محمد جواد کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔
مظاہرین نے گرفتاری کو انتقامی کاروائی قرار دیا اور کیس واپس لینے کا بھی مطالبہ کیا۔ مظاہرین سے خطاب میں ایک طالب علم نے کہا کہ جواد بے قصور ہے اور اسے پھنسایا جا رہا ہے۔ یونیورسٹی میں جو کچھ ہو رہا ہے، جواد نے اس کے خلاف درخواست دی تھی جس پر کارروائی کی بجائے ان کے خلاف کیس بنا دیا۔”
طالبات کو ہراساں کرنے پر وی سی کو درخواست
جواد نامی طالب علم نے گرفتاری سے 2 دن قبل وائس چانسلر کو درخواست دی تھی جس میں انہوں نے یونیورسٹی کے دفاتر میں طالبات کو ہراساں کرنے کا الزام لگایا تھا۔ وی نیوز کے پاس درخواست کی کاپی دستیاب ہے جس میں انہوں نے کسی کا نام نہیں لیا بلکہ لکھا تھا کہ انہیں معلوم ہوا ہے کہ دفاتر میں طالبات کو ہراساں کیے جانے کے واقعات پیش آئے ہیں جن سے یونیورسٹی میں بے چینی کی صورت حال ہے، انہوں نے اس پر سخت کارروائی اور روک تھام کے لیے اقدامات کرنے پر زور دیا ہے۔
درخواست میں محمد جواد نے ہراساں کرنے والوں کے خلاف کوئی ثبوت نہیں دیا تھا۔ تاہم روک تھام کے لیے تجاویز ضرور دی تھیں۔ انہوں نے یونیورسٹی کے دفاتر اور خاص پوئنٹس پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے کی تجویز دی۔ اور دروازوں میں شیشے لگانے پر بھی زور دیا۔
یونیورسٹی انتظامیہ نے درخواست موصول ہونے کی تصدیق کی تھی تاہم اسے من گھڑت کہانی قرار دیا تھا۔
احتجاج کے بعد کلاس رومز کے دروازوں میں شیشے اور کیمرے نصب کیے گئے
مبینہ ہراسانی کے خلاف درخواست اور احتجاج کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ حرکت میں آئی تھی۔ اس نے کیمپس میں کیمرے نصب کیے تھے جبکہ کلاس رومز اور دفاتر کے دروازوں میں شیشے بھی نصب کئے تھے۔ انتظامیہ کا موقف ہے کہ ابھی تک جنسی ہراسانی کا واقعہ رپورٹ نہیں ہوا اور نہ ہی ایسا کوئی واقعہ پیش آیا ہے۔