جب تین اقلیتی مذاہب کے نمائندہ شہری فریاد لے کر سپریم کورٹ پہنچے

جمعہ 8 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز الاحسن نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان کا آئین اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے اور قائد اعظم نے اپنی تقریر کہا تھا کہ اقلیتیں اس ملک میں آزاد ہیں۔

لیکن بابا گرو نانک ویلفیئر سوسائٹی کے چیئرمین سردار بشن سنگھ اس بات پر متفکر نظر آئے کہ سکھ تاریخ جس کا 70 فیصد حصہ پاکستان میں ہے وہ آہستہ آہستہ مٹتی جا رہی ہے اور سکھوں کی نئی نسل اپنی تاریخ کو کیسے یاد رکھ پائے گی۔ ان کے لیے یہ امر بھی پریشانی کا باعث تھا کہ وہ اپنی مذہبی علامت یعنی کرپان کے ساتھ سپریم کورٹ اور دیگر جگہوں پر کیوں داخل نہیں ہوسکتے۔

اقلیتوں کے حقوق سے متعلق پہلے سے دائر شدہ اس مقدمے میں تینوں اقلیتی مذاہب کے لوگوں نے درخواستیں دائر کر رکھی تھیں جس کی سماعت جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کی۔ جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی اس بینچ کا حصہ تھے۔

سکھوں کی شکایات

لاہور میں ٹوٹ پھوٹ کے شکار گوردواروں کی تفصلات سپریم کورٹ میں پیش کرتے ہوئے سردار بشن سنگھ کا کہنا تھا کہ ان کے لوگ 1947 میں اپنا وطن چھوڑ کر ہندوستان چلےگئے، ہم یہیں رہے ہمارے مذمب کا آغاز بھی یہاں سے ہوا تھا، ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ہم سکھ ہیں اس لیے ہمارے ساتھ کچھ غلط کیا جارہا ہے، قبصہ گروپ مندر، مسجد، گوردوار وغیری کچھ نہیں دیکھتا۔

سردار بشن سنگھ نے عدالت کو بتایا کہ ہمارے نوجوانون میں خوف ہے کہ ان کی ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے، ٹارگٹ کلنگ کا شکار مسلمان بھی ہیں مگر ہماری آبادی کم ہے، گزارش یہ ہے کہ محمکہ اوقاف گردواروں کی چار دیواری بنائے اور قبضہ گروپوں سے بچائے۔

جسٹس اعجاز الحسن  بولے؛ آپ کی درخواست میں ایک ایشو ٹارگٹ کلنگ کا اٹھایا گیا ہے، دوسرا ایشو آپ نے اٹھایا کہ گوردواروں کی تزئین و آرائش اور مرمت نہیں ہورہی، ہم تمام متعلقہ اداروں سے رپورٹ مانگ رہے ہیں، آپ ہمیں مثاثرہ گردواروں کی فہرست دیں۔

سکھ رہنماؤں کی جانب سے سپریم کورٹ میں کرپان سمیت داخلے کی بھی استدعاکرتے ہوئے کہا گیا کہ کرپان مذہبی طور پر سکھوں کے لباس کا حصہ ہے۔ سپریم کورٹ نے سیکرٹری مذہبی امور اور چیرمین اوقاف کو نوٹسسز جاری کر دیے۔

سکھ برادری کی ٹارگٹ کلنگ کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے جسٹس اعجاز الااحسن کا کہنا تھا کہ ٹارگٹ کلنگ کے باعث سکھ برادری کو مختلف مقامات پر منتقل ہونا پڑ رہا ہے، سکھ برادری کے لوگ پاکستان چھوڑ کر جانے پر مجبور ہو گئے، ریاست کو سکھ برادری کی حفاظت یقینی بنانے کیلئے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، عدالت نے آئی جی خیبر پختونخوا سے حالیہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پر تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔

جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ قائد اعظم نے اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ اقلیتوں کو تحفط ملے گا، ریاست سکھ کمیونٹی کا تحفظ یقینی بنائے، ریاست کی زمہ داری ہے اقلیتوں سے متعلق آئین میں دی گئی ضمانتوں کا پاس رکھے، ان ریمارکس کے ساتھ عدالت نے اٹارنی جنرل پاکستان اور ایڈوکیٹ جنرل کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام ایڈوکیٹ جنرلز متعلقہ صوبوں سے متعلق رپورٹ پیش کریں۔

ہندوؤں کا موقف

ہندو کمیونٹی کے نمائندے کیلاش کمار نے بھی انہی تحفظات کا اظہار کیا جن کا ذکر سردار بشن سنگھ نے کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں بھی سندھ میں سکھوں جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ آپ کے مسئلے پر متروکہ وقف املاک بورڈ کو نوٹس کر دیا ہے ان کی رپورٹ کا انتظار ہے؛ بورڈ کو ایک بار پھر نوٹس کر رہے ہیں۔ عدالت پر کراچی میں مندروں کی حالت سے متعلق محکمہ اوقاف کو نوٹس جاری کرتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی۔

سانحہ جڑانوالہ سے جڑا مسیحی برادری کا مقدمہ

مسیحی کمیونٹی کی جانب سے درخواست گزار سیموئل پیارا نے عدالت کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کرائی کہ ڈپٹی کمشنر سرگودھا نے ایک مذہبی جماعت کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت وہ مسیحی بستیوں میں گھوم پھر کر مبینہ توہین کا جائزہ لے سکتے ہیں۔

’جڑانوالہ واقعے پر پنجاب حکومت نے جو رپورٹیں تیار کی ہیں وہ ابھی تک ہمیں نہیں ملیں۔2015/16  میں مسیحی بستیوں اور عبادت گاہوں سے متعلق ایک سیکیورٹی پلان بنا تھا اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ جڑانوالہ واقعے کے بعد نفرت انگیز تقاریر کی گئیں اس پر بھی حکومت سے پوچھا جائے کہ کتنے مقدمات درج ہوئے۔‘

سیموئل پیارا کا موقف تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے جڑانوالہ واقعے میں تباہ ہونے والے مکانات کے مالکان کے لیے 20 لاکھ روپے ازالے کا اعلان کیا تھا، تاہم 25 خاندانوں کو یہ معاوضے نہیں ملے۔ 89 تباہ حال مکانات کی شناخت ہوئی، لیکن جن گھروں میں چوریاں ہوئیں، ان خاندانوں کو بھی معاوضہ دیا جائے۔

بینچ نے ریمارکس دیے کہ قانون کے مطابق نفرت انگیز تقریر کرناجرم ہے، وفاقی اور صوبائی متعلقہ ادارے اس ضمن میں جواب جمع کرائیں۔ عدالت نے جڑانوالہ سانحہ پر ڈپٹی کمشنر سرگودھا کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے سماعت دو ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp