یہ صرف نور مقدم نہیں بلکہ پاکستان کی تمام بیٹیوں کے لیے انصاف کی جنگ تھی، شوکت مقدم

ہفتہ 9 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

20 جولائی 2021 کو اسلام آباد کے پوش علاقے ایف 7 میں ایک المناک سانحہ رونما ہوا جس میں وزارت خارجہ کے سابق سفیر شوکت مقدم کی جواں سالہ صاحبزادی نور مقدم کو انتہائی بے رحمانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا۔

اس واقعے نے جہاں ملکی اور عوامی سطح پر شدید غم و غصے کو جنم دیا وہاں بین الاقوامی سطح پر بھی احتجاج ہوا اور لوگوں نے یک زبان ایک رئیس اور بااثر گھرانے سے تعلق رکھنے والے قاتل ظاہر جعفر کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔

 24 فروری 2022 کو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے ظاہر جعفر کو عمر قید اور سزائے موت سنائی جب کہ فیصلے کے خلاف اپیل میں بھی اسلام آباد ہائی کورٹ نے 13 مارچ 2023 کو ظاہر جعفر کو مجرم قرار دیتے ہوئے دہری سزا برقرار رکھی۔

مقدمے میں ظاہر جعفر کے 2 ملازمین ایک سیکیورٹی گارڈ اور ایک خانساماں کو بھی اعانت جرم میں 10 ، 10 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اب مجرم نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے۔

نور مقدم کے قتل کے غم سے کیسے نبرد آزما ہوتے ہیں؟

مقتولہ نور مقدم کے والد شوکت مقدم نے اس سارے واقعے پر وی نیوز سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ایک وحشی درندے نے نور مقدم کا قتل کیا۔

انہوں نے بتایا کہ جب یہ خبر ملی تو گھر میں ماتم کا بچھ گیا، وہ لحمہ بہت ہی دکھ اور کربناک تھا۔ اس کربناک گھڑی میں ہمارے پاس ایک آپشن یہ تھا کہ جو ہو گیا اس کو سہہ لیں لیکن ہم نے سوچا کہ نہیں، ہم اس خلاف کھڑے ہوں گے اور بھرپور انداز میں مقدمہ لڑیں گے۔

شوکت مقدم نے بتایا کہ ہمارے بھائی، بہن،  رشتے دار اور نور کے کلاس فیلوز بھی ہمارے ساتھ ہو گئے پھر دنیا بھر میں لوگوں نے اس مقدمے کے لیے آواز اٹھائی، میڈیا کا کردار بھی قابلِ ستائش رہا۔

ہمیں بہت حوصلہ اور تقویت ملی، ہم  اس کے خلاف ڈٹ گئے کیونکہ یہ نور مقدم کی جنگ نہیں بلکہ پاکستان کی تمام بیٹیوں کے لیے انصاف کی جنگ تھی، اگر ایسا نہ کرتے تو وحشی درندے معصوم بچیوں کو یرغمال بنا کر قتل کرتے رہیں گے۔

نور مقدم قتل کے واقعے سے بہت خوف و ہراس پھیل گیا تھا

 شوکت مقدم نے بتایا کہ نور مقدم کے قتل کے واقعے کے بعد بہت خوف و ہراس پھیل گیا تھا اور ہمارے فارن آفس کے افسران کی بچیاں جن کے والدین بیرون ملک پوسٹنگ پر چلے جاتے ہیں اور وہ تعلیم یا دیگر وجوہات کی بنا پر یہیں رہتی ہیں انہوں نے اپنے ماں باپ سے کہنا شروع کر دیا تھا کہ ہم یہاں اکیلی نہیں رہ سکتیں، ہمیں خوف آتا ہے۔

بچیاں اتنی خوفزدہ ہو گئی تھیں کہ وہ کہتی تھیں ہم ہاسٹل میں نہیں رہ سکتیں، اکیلے گاڑی چلا کر کہیں جا نہیں سکتیں۔ نور کی بعض سہیلیوں نے بتایا انہیں جب بھی اس واقعے کی یاد آتی وہ رات کو اٹھ کر بیٹھ جاتی ہیں۔

اس واقعے کا اصل محرک کیا تھا؟

شوکت مقدم نے بتایا کہ واقعے کا محرک کوئی نہیں تھا بلکہ کچھ لوگ مجرمانہ ذہنیت کے حامل ہوتے ہیں اور ان کو جرم کرنے کا شوق ہوتا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے بااثر لوگ ہیں اور ہم کسی کے ساتھ کچھ بھی کر لیں ہمیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا اور وہ اس بات سے لطف اٹھاتے ہیں۔

عدالت نے بھی اس معاملے میں یہی مشاہدہ کیا کہ ظاہر جعفر کوئی نفسیاتی مریض نہیں بلکہ ایک انتہائی ذہین، شاطر اور مجرمانہ ذہن کا حامل شخص ہے، ایسے لوگ ایک 2 بار جرم کر کے چھوٹ جاتے ہیں اس کے بعد ان کو عادت پڑ جاتی ہے۔

میں اس خاندان کو جانتا تھا۔۔۔۔

شوکت مقدم نے بتایا کہ وہ ظاہر جعفر کے والد کو جانتے تھے اور چند ایک بار ان کے گھر میں قیام بھی کر چکے تھے اور اس کے دادا کو بھی جانتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے کبھی اس بات کا اندیشہ نہیں ہوا بلکہ کبھی میرے وہم میں بھی نہیں آیا کہ اس طرح کا واقعہ رونما ہو سکتا ہے۔

نور کی سہیلیاں اپنے ماں باپ سے کہتی تھیں کہ ایسا تو ہمارے ساتھ بھی ہو سکتا تھا کیوں کہ ظاہر کی بہن سے ہماری دوستی تھی اور ہم بہت بار اس کے گھر گئی ہیں، ہم ان لوگوں کی سالگرہ اور شادیوں میں جاتی تھیں اور یہ ہمیں بھی مار سکتا تھا۔

انتہائی بے رحمانہ طریقے سے قتل کرنے والے کی پرورش میں کیا نقائص ہو سکتے ہیں اس بارے میں بات کرتے ہوئے شوکت مقدم نے کہا کہ اس میں ہمارے لیے ایک سبق ہے کہ والدین پیسے کے حصول، سوشل لائف، سیر و سیاحت پر ضرور وقت گزاریں لیکن اس کے ساتھ اپنی اولاد کو بھی وقت دیں۔

اولاد کی تربیت بہت ضروری ہے، ایسا نہیں ہونا چاہییے کہ والدین اس قدر مشغول رہیں کہ بچوں پر توجہ ہی نہ دے پائیں۔

مقدمے کی عدالتی کارروائی کے دوران کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

مقدمے میں پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں بات کرتے ہوئے شوکت مقدم نے کہا کہ مشکلات تو بہت آئیں۔ انہوں نے کہا کہ اب تو اسلام آباد کی کچہری نئی بن گئی ہے لیکن اس وقت جو کچہری تھی اس کے بہت چھوٹے چھوٹے کمرے تھے اور بیٹھنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی لیکن قابلِ تعریف بات یہ ہے کہ جج حضرات ساڑھے 8 بجے کمرہٓ عدالت میں آ جاتے تھے۔

شوکت مقدم نے کہا کہ اس مقدمے میں سیشن جج عطاء ربانی نے انتہائی صاف و شفاف ٹرائل کیے ہیں۔ ملزم کے دفاع کے لیے وکلا لاہور سے آتے تھے اور وہ جو تاریخ مانگتے تھے انہیں دی جاتی تھی جو دستاویزات وہ مانگتے تھے انہیں دے دی جاتی تھیں۔

اس وقت سب لوگ یہی کہتے تھے کہ یہ تو ’اوپن اینڈ شٹ ‘کیس ہے کیونکہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں سب صاف دکھائی دے رہا تھا لیکن عدالت نے قانون کے تمام تقاضے پورے کیے جو ایک طویل عمل تھا۔

ماں باپ کو کیوں چھوڑ دیا گیا؟

شوکت مقدم نے بتایا کہ عدالتی فیصلے کے بعد ہر ایک یہ سوال کرتا تھا کہ ظاہر جعفر کے والدین کو کیوں چھوڑ دیا گیا کیونکہ ان کو تو سب معلوم تھا اور وہ اس میں ملوث بھی تھے وہ اگرچہ کراچی میں بیٹھے تھے لیکن نور مقدم کو بچا تو سکتے تھے کیونکہ ان کے سی سی ٹی وی کیمرے وہاں بھی مربوط تھے اور وہ کراچی میں سب کچھ ہوتا ہوا دیکھ سکتے تھے۔

کیا آپ پر صلح کے لیے دباؤ ڈالا گیا؟

 صلح کے لیے دباؤ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں شوکت مقدم نے کہا کہ ایک تیسرے فریق کے ذریعے مجھ سے رابطہ کیا گیا لیکن میں نے واضح پیغام دے دیا تھا کہ اس معاملے پر کوئی صلح یا سمجھوتہ نہیں ہو گا ۔

میں نے پہلے دن سے یہ پیغام دے دیا تھا کہ یہ صرف نور مقدم کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کی تمام بیٹیوں کے لیے ایک جدوجہد ہے۔ میں اس کے لیے لڑوں گا اور ان شا اللہ لڑتا رہوں گا۔

شوکت مقدم نے بتایا کہ اب ان لوگوں نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے جواب میں ہم نے بھی اپیل دائر کر رکھی ہے اب بس یہ چاہتے ہیں کہ جلد سنوائی ہو۔

پھانسی

شوکت مقدم نے کہا کہ نور مقدم کے بعد ایک اور بچی سارہ انعام کا بھی قتل ہو گیا اور جب تک  اس طرح کے چند درندوں کو پھانسی نہیں ملے گی اس طرح کے جرائم ہوتے رہیں گے۔

یہ لوگ بچیوں کا استحصال کر کے ان کو قتل کرتے رہیں گے، سول سوسائٹی کب تک اس طرح کے جرائم کو برداشت کرتی رہے گی۔ شوکت مقدم نے کہا کہ اس طرح کے واقعات کے تدارک کے لیے سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ قوانین پر پوری طرح سے عملدرآمد کیا جانا چاہیے۔

شوکت مقدم کا کہنا ہے کہ مقدمات کو سالوں لٹکانے کی بجائے ان کے فیصلے جلد ہوں گے تو تب ہی معاشرے سے اس طرح کے جرائم کی بیخ کنی ہو سکتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp