حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
دھمکیاں، مطالبے، شکوے شکایتیں، آرزوئیں، اظہار، تکرار اور پھر اقتدار، یہاں تک پہنچنے کے لیے سیاسی جماعتیں کیا کچھ نہیں کرتیں۔ مقبول نعروں کے ذریعے عوام کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں، لیکن قسمت کی دیوی مہربان ہوتے ہی وہ مقتدر قوتوں کے ساتھ مل کر ان کا سودا کر ڈالتے ہیں۔ ان کے عام فقرے اور خاص نعرے جن سے عوام اُمیدیں وابستہ کرلیتے ہیں، اس کے مفہوم بدلنے لگتے ہیں۔ کیونکہ وہ جس’’مخصوص پیغام‘‘ کے منتظر ہوتے ہیں وہ اقتدار کی صورت ان کی جھولی میں گِرا دیا جاتا ہےاور یوں مقبول نعروں کی تکمیل ممکن نہیں ہوتی۔
نعرہ جتنا فلک شگاف ہو اس میں محبت اور نفرت کی شدت بھی اتنی ہی ہوتی ہے۔ عوام اپنے لیڈران کے لیے نعروں کے ساتھ قدم آگے بڑھاتے ہیں، لیکن جب پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو سہاروں کے متلاشی رہنما ہی ان کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ کیونکہ ظالم سیاست چیز ہی ایسی ہے صرف اپنا مفاد دیکھتی ہےعوامی ضروریات نہیں۔
سیاسی جماعتیں ایسے نعرے بناتی ہیں جیسے خوشحالی کی منزل ہمارے انتظار میں ہے۔ کتنی جماعتیں آئیں، کتنے نعرے لگائے، لیکن پھر نعروں کے ساتھ خود بھی معدوم ہوگئیں۔ جو جماعتیں زندہ ہیں اور نعروں کے ساتھ زندہ ہیں، ان میں پاکستان پیپلز پارٹی ہے۔ جس کا نعرہ ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ بھی ایسا ہی تھا۔ اس نعرے کو بھرپور مقبولیت اور عوامی پذیرائی ملی لیکن یہ فقط نعرے ہی ثابت ہوئے۔ ان نعروں سے نہ توعوام کی حالت بدلی اور نا ہی ان کو روٹی ، کپڑا اور مکان جیسی بنیادی سہولت ہی میسر آسکی۔
لیڈر صرف نعروں سے عوام کا پیٹ بھرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا ہی موقع جب میاں نواز شریف کو ملا تو ”قرض اتارو ملک سنوارو“ کا نعرہ مستانہ لگا گئے۔ یہ ایسا خوش کن نعرہ تھا کہ سمندر پار پاکستانی بھی جھوم اُٹھے۔ اپنے ڈالر پاکستان کے خزانے میں جمع کرادئیے۔ ہمیشہ کی طرح صفِ اول میں کردار ادا کرنے والی خواتین نے اپنے زیورات تک دے ڈالے۔ لیکن انجام کیا ہوا؟ نہ ملک سنورا نہ قرض اترا۔ قرض کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی چلا گیا اور اس وقت حالات یہ ہیں کہ ہمارا قرض 50 ہزار ارب سے تجاوز کرچکا ہے۔ پھرن لیگ نے ’’بدلا ہے پنجاب اب بدلیں گے پاکستان‘‘ کا بھی ایسا نعرہ لگایا جیسے دودھ اور شہد کی نہریں بہا دی جائیں گی۔ وہ نہریں تو کہیں نظر نہ آئیں لیکن ملک مزید پستی اور تنزلی کی جانب چلا گیا۔
پھر سیاست کے میدان میں ایک کھلاڑی اُترا۔ ان کا نام تھا عمران خان۔ ”نئے پاکستان“اور”تبدیلی“ کی ڈگڈگی بجاتے وزیراعظم کے منصب پر براجمان ہوئے تو توقع تھی کہ میدانِ کرکٹ میں جھنڈے گاڑتا یہ کھلاڑی یہاں بھی کوئی کارنامہ سرانجام دے گا لیکن ان کے نعرے بھی محض نعرے ہی رہے۔ ”دو نہیں ایک پاکستان“ میں کئی کئی پاکستان دیکھنے کو ملے۔ حالات یہاں تک پہنچے کہ تین برس میں ہی ”آؤ مل کر بنائیں ایک نیا پاکستان“ اور ”تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آگئی ہے“ جیسے نعرے لگانے والے کانوں کو ہاتھ لگا گئے۔ نیا پاکستان کا نعرہ طنز کا استعارہ بن گیا۔ جب عمران خان گئے تو بلاول بھٹو کو کہنا پڑا کہ ”ویلکم ٹو پرانا پاکستان“۔
عمران گیا تو اپوزیشن اتحاد کامیابی سے ”ملکی معیشت بچاؤ“ کے نعرے اور بیانیے کے ساتھ میدان میں اُتری۔ لیکن معیشت بچ سکی نہ عوام کی سکت باقی رہی۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ لوگ نانِ جویں کے لیے ترس رہے ہیں۔ بنیادی ضروریات زندگی کا حصول بھی عذاب بن گیا۔ بجلی نے ایسی بجلیاں گرائیں کہ چودہ طبق روشن ہوگئے۔ پٹرول نے ایسی آگ لگائی کہ ہر چہرہ جھلستا محسوس ہوا۔ موہوم سی اُمیدیں بھی دم توڑ گئیں کیونکہ عملی طور پر تمام لیڈروں نے عوام کو چکمہ دے کر اپنی جیبیں بھریں اور ملک کو کنگال کر دیا اور عام انسان کو کیا ملا؟
پاکستان کے فیصلے کرنے والی مقتدر قوتیں بھی ایک نعرہ لگاتی ہیں کہ ”ہم غیرسیاسی ہیں“ ،”ہمیں سیاست میں نہ گھسیٹا جائے“ لیکن صورت حال یہ ہے کہ سیاست ان کے بغیر نامکمل ہے۔ سیاست تو صرف انہی کے مدار کے گرد گھومتی ہے۔ شاید ”میں کمبل کو چھوڑنا چاہتا ہوں لیکن کمبل مجھے نہیں چھوڑتا“ کہاوت ان پر صادق آتی ہے۔
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ نعرے بہت ہیں۔ کچھ نئے کچھ پرانے۔ کچھ ابھی راستے میں۔ دیکھتے ہیں کہ کب کون کیسا نیا نعرہ لگاتا ہے اور کس میں یہ صلاحیت زیادہ ہے کہ بار بار ڈسے ہوئے عوام کو ایک نئی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگاتا ہے۔۔۔ کیونکہ ہم تو دھوکا کھانے کے عادی ہیں۔ کوئی دھوکا نہ دے تو خود دھوکا کھانے نکل پڑتے ہیں۔ یہی ادا ہماری سب سے جدا ہے۔ اور انہی اداؤں کے اسیر ہمارے سیاست دان ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔














