کیا ہم پاکستانیوں اور اُس نکمے لڑکے کے درمیان کوئی فرق باقی رہ گیا جو محض ایک شیخی کے ساتھ ہی زندگی گزارنا چاہتا تھا کہ ’پدرم سلطان بود‘ یعنی میرا باپ بادشاہ تھا۔ لوگ کہتے’ ٹھیک ہے، تمہارا باپ بادشاہ تھا لیکن تم خود کیا ہو؟‘ وہ پھر کہتا: ’پدرم سلطان بود‘۔
زندگی شیخیاں بگھارنے سے نہیں گزرتی کجا ترقی اور بلندی کا سفر طے ہو۔ لیکن ہم پاکستانی بحیثیت قوم بضد ہیں، اور شیخیاں بگھارتے ہوئے زندہ رہنا چاہتے ہیں۔
کسی نے کہا کہ جب آپ نے پاکستان قائم کیا تو چین کی کیا حالت تھی اور اب چین کہاں کھڑا ہے اور آپ کتنے پانی میں ہو؟ ہم مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہتے ہیں:’ہم ہی نے چین کو اقوام متحدہ کی رکنیت دلائی تھی ورنہ کون چین کو تسلیم کرتا تھا‘۔ اس کے بعد آنکھیں میچ کر، طویل سانس لے کر سوچتے ہیں کہ چینی قوم تب سے اب تک اور اب سے ابد تک ہمارے اس احسان تلے دبی ہوئی ہے۔ واہ کیا بات ہے ہماری!
کسی نے کہا کہ دنیا کی ساری اقوام آپ کے بعد پیدا ہوکر آپ سے آگے نکل گئیں۔ جواب میں ہم سینہ تان کر کہتے ہیں:’ پھر کیا ہوا؟ ہم ہی نے کوریائی قوم کو ترقی کا 5 سالہ منصوبہ تیار کرکے دیا تھا‘۔ایک بار پھر دل ہی دل میں خوش ہوتے ہیں کہ کوریائی قوم تا قیامت ہماری ممنون احسان رہے گی۔ واہ کیا بات ہے ہماری!
خبر آئی کہ بھارت نے بھی چاند پر قدم رکھ لیا ہے۔ اور ہم نے کہا ’پھر کیا ہوا؟ خلائی تحقیق کا ادارہ ’سپارکو‘ ہم نے انڈیا سے پہلے قائم کرلیا تھا، واہ کیا بات ہے ہماری!‘۔
یہ کہہ کر ہم ایک عجیب فاتحانہ مسکراہٹ اپنے چہرے پر سجا لیتے ہیں۔ کسی نے کہا کہ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر پاکستان کے متعلق پوچھے گئے ایک بھی سوال کا جواب دینا پسند نہیں کرتا، اور ہمیں زوال کا طعنہ دیتا ہے۔ یہ سن کر ہم اپنے چہرے کا رخ بھارت کی طرف کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’کمینہ دشمن‘۔ اور زور سے اسی طرف تھوک پھینکتے ہیں اور اپنا منہ پھیر لیتے ہیں۔
ہم محض انہی باتوں سے مسحور رہتے ہیں کہ ہم دنیا کی نمبر ون قوم ہیں، ہماری ریاست دنیا کی واحد نظریاتی ریاست ہے، دنیا میں کوئی مملکت لاالہ الا اللہ کے نعرے پر قائم نہیں ہوئی، ہم مملکت خدا داد میں رہتے ہیں جو 27 رمضان المبارک کو معرض وجود میں آئی تھی۔ ہماری مملکت نور ہے اور نور کو زوال نہیں۔
ہم ان باتوں پر ایمان لاکر پیدا ہوئے، یہی باتیں سن کر بچپن، لڑکپن، جوانی گزاری اور جب بالوں میں بزرگی اتر آئی، ہم یہی باتیں سوچ کر سر دھنتے ہیں لیکن کیا کریں نئی نسل کا، وہ کچھ اور ہی سوچ رہی ہے، کچھ اور ہی بول رہی ہے۔ لڑکپن سے جوانی میں قدم رکھنے والا ہر فرد، تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہر نوجوان جب میدان عمل میں اترتا ہے تو وہ ہم سے کہتا ہے ’وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں‘۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال 40 لاکھ نوجوان روزگار کی عمر کو داخل ہوتے ہیں، جن میں سے 61 فیصد روزگار حاصل کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود ناکام رہتے ہیں۔ اور جو کسی نہ کسی طرح روزگار حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، وہ بھی اس ملک میں رہ کر اپنے مستقبل کو تاریک ہی دیکھتے ہیں، چنانچہ وہ پاکستان چھوڑنے کے لیے تڑپتے رہتے ہیں۔
گزشتہ برس 2022 میں ساڑھے 7 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ ان میں نوجوانوں کی بڑی تعداد تھی۔ یہ ڈاکٹرز، انجینئرز اور آئی ٹی ماہرین تھے۔ سن 2023 کے پہلے 6 ماہ میں ساڑھے 4 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ چکے ہیں۔
نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ فرماتے ہیں’اگر کوئی اچھے مستقبل کے لیے امریکا، یورپ یا کسی اور ملک جاتا ہے تو یہ مثبت چیز ہے جس کی ہمیں حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ باہر جانے والا نوجوان خاندان کی روزی روٹی کا سبب بنتا ہے اور ترسیلات زر کے ذریعے ملک کی معیشت میں بھی اپنا حصہ ڈالتا ہے‘۔
نگراں وزیراعظم کی پہلی بات تو درست کہ وہ خاندان کی روزی روٹی کا سبب بنتا ہے لیکن دوسری بات غلط ہے کہ وہ ترسیلات زر کے ذریعے ملکی معیشت میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔
اپنے ملک میں پیدا ہوتے ہی جوتے کھاتے چلے جانے والے یہ نوجوان بیرون ملک پہنچ کر رقم اپنے خاندانوں کو ضرور بھیجتے ہیں لیکن وہ ایسے تمام راستے اختیار کرتے ہیں جو ملکی قانون کے مطابق نہیں ہوتے۔ ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ ان کی بھیجی ہوئی رقم میں سے ایک پیسہ بھی حکومتی کھاتے میں درج نہ ہو، 100 فیصد رقم نان ڈاکومینٹڈ انداز میں ان کے گھر والوں تک پہنچے اور وہ اسی انداز میں خرچ کریں۔آپ نے بھی سن رکھا ہوگا کہ ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے۔ بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کا یہ ردعمل ہے ریاستی اداروں کے عمل کا۔
قیام پاکستان کو پون صدی بیت چکی، آج بھی ہم ’اب یہ ہوگا، اب وہ ہوگا، اب ہم ایسا کریں گے، اب ہم ویسا کریں گے‘ جیسی باتیں ہی کر رہے ہیں۔ اور ہمارا یعنی دنیا کی نمبر ون قوم کا حال یہ ہے کہ ہمارے سب بڑے لوگ برے لوگ بنے ہوئے ہیں، وہ ملک و قوم کے وسائل دونوں ہاتھوں کے ساتھ پوری بے رحمی سے ہڑپ کر رہے ہیں۔ عظیم المرتبت اقبال نے کہا تھا:
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دِیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
27 رمضان المبارک کو ’لا الہ الا اللہ‘ کی بنیاد پر قائم ہونے والی مملکت خداداد، دنیا کی واحد نظریاتی ریاست کی حالت زار یہ ہے کہ یہاں جاگیردار، سرمایہ دار، وڈیرے، سیاست دان، جج، جرنیل اور بیوروکریٹ مفت بجلی کے مزے لیتے ہیں، ان کے حواری بجلی چوری کرتے ہیں اور ان سب کا بل ادا کرتی ہے دنیا کی نمبر ون قوم!
اس قوم سے کہا جاتا ہے کہ آپ کو بھاری بھرکم بل ادا کرنا ہوں گے جب تک جاگیردار، سرمایہ دار، وڈیرے، سیاست دان، جج، جرنیل اور ان کے حواری بجلی چوری کرنے سے باز نہیں آتے۔
جب کہا جاتا ہے کہ بجلی چوری روکنا عوام کا نہیں آپ کا کام ہے۔ تب جواب ملتا ہے کہ اس کے باوجود بھاری پتھر آپ ہی کو چومنا ہے، قربانی آپ ہی کو دینا ہوگی۔ کیونکہ نگراں وزیر اعظم کے بقول بجلی چوری روکنا مشکل ہے۔
پرسوں نگراں وزیراعظم اپنی ساری کابینہ سمیت خوشی سے الٹی چھلانگیں لگا رہے تھے کہ انہوں نے رات دن ایک کرکے آئی ایم ایف کو ریلیف پر راضی کرلیا ہے۔
یہ ’تاریخی‘ اور ’زبردست‘ ریلیف کیا ہے؟ 200 یونٹ بجلی خرچ کرنے والوں سے بل 3 اقساط میں وصول کیا جائے گا۔ یعنی اس ملک کے سب سے زیادہ غریب طبقے کو بل اُسی قیمت پر ادا کرنا ہوگا، بلکہ آنے والے دنوں میں اس سے بھی زیادہ قیمت ادا کرنا ہوگی۔ اس ماہ کے بل کی اقساط کرانی ہیں تو بدلے میں گیس کی قیمت میں 50 فیصد اضافہ ہمیشہ کے لیے قبول کرنا ہوگا۔
نگراں وزیر اعظم پچھلے وزرائے اعظم کے جملے مستعار لے کر فرماتے ہیں کہ 90 فیصد لوگ ٹیکس ہی نہیں دیتے، لوگ ٹیکس نیٹ میں آنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں وغیرہ۔
سوال یہ ہے کہ ٹیکس وصول کرنا کس کا کام ہے؟ اگر حکمران ٹیکس وصول کرنے کی ہمت اور صلاحیت نہیں رکھتے تو پھر ان کی حکمرانی کا جواز کیا ہے؟؟ کیا انہیں اس لیے اقتدار دیا جائے یا اقتدار میں رہنے دیا جائے کہ یہ ملک کے سب سے زیادہ پسے ہوئے طبقہ کو مزید پیستے رہیں؟
کیا ریاستیں دنیا میں اس لیے وجود میں آئی تھیں کہ وہاں امیر طبقات ٹیکس نہ دیں، بجلی چوری کریں یا مفت بجلی کے مزے لوٹیں اور غریب طبقات ہی ٹیکس دیں، امیروں کی بجلی کے خرچے ادا کریں؟؟
ہماری نوجوان نسل کو لگتا ہے کہ پاکستان نام کی ریاست اسی لیے وجود میں آئی تھی۔ ان بچوں کو بھی محض انہی باتوں سے مسحور کرنے کی کوشش کی گئی کہ تم دنیا کی نمبر ون قوم ہو، تمہاری ریاست دنیا کی واحد نظریاتی ریاست ہے، دنیا میں کوئی مملکت لاالہ الا اللہ کے نعرے پر قائم نہیں ہوئی، تم مملکت خدا داد میں رہتے ہو جو 27 رمضان المبارک کو معرض وجود میں آئی تھی۔ تمہاری مملکت نور ہے اور نور کو زوال نہیں۔
معاف کیجیے گا کہ نئی نسل ایسی باتوں سے بہلنے والی نہیں۔ وہ اپنے موجودہ بڑوں سے عمل مانگتی ہے۔ نئی نسل قربانی دینے کو تیار نہیں، وہ بڑوں سے قربانی مانگتی ہے۔ نئی نسل ٹیکس تب دے گی جب قوم کے بڑے ٹیکس دیں گے، وہ بجلی کے بل تب بھرے گی جب بڑے اپنے بل خود بھریں گے۔
میری قوم کے قابل صد احترام بڑے لوگو!
ہماری نئی نسل ’ پدرم سلطان بود‘ کی شیخی بگھارنے والے لڑکے جیسی نہیں۔ اب آپ کو خود ہی ساری قربانیاں دینا ہوں گی۔