جی 20 اجلاس : ایسا لگتا ہے بھارتی حکومت کے بجائے بی جے پی اس سمٹ کی میزبان ہو، ارون دھتی رائے

ہفتہ 9 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جی 20 سربراہی اجلاس آج سے بھارت کے دارالحکومت نیو دہلی میں شروع ہوگیا ہے۔ اجلاس میں شرکت کے لیے مختلف رکن ممالک کے سربراہان، نمائندگان اور مندوبین بھی بھارتی دارالحکومت پہنچ چکے ہیں۔

نیو دہلی کی سڑکیں، دفاتر اور اسکول بند ہیں اور پھیری اور ٹھیلے والوں کو ’غائب‘ کر دیا گیا ہے۔ شہر کی بد صورتی مٹانے کے لیے کچی آبادیوں کو بلڈوز کر دیا گیا ہے جبکہ ’خوبصورتی میں اضافے‘ کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے نعروں اور مودی جی کی تصویروں سے مزین قد آور بل بورڈز آویزاں کیے گئے ہیں۔

مودی سرکار نے مہنیوں پہلے ہی جی 20 اجلاس کی تیاریاں شروع کر دی تھی۔ شہر کی خوبصورتی میں اضافے کے لیے شروع کی گئی مہم پر مودی سرکار کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

الجزیرہ سے ایک انٹرویو میں معروف بھارتی مصنفہ ارون دھتی رائے نے بھی مودی سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے بھارت نہیں بلکہ بی جے پی اس اجلاس کی میزبان ہو۔

بھارتی حکومت کے اقلیتوں سے ناروا سلوک پر ارون دھتی رائے کا کہنا تھا کہ بھارت میں کسی کو بھی اقلیتوں کی فکر نہیں، یہاں آج جی20 سربراہی اجلاس منعقد کیا جا رہا ہے جس میں ہرایک کی نظر تجارتی و عسکری معاہدوں یا جغرافیائی و سیاسی تذویراتی سمجھوتوں پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا بھی نہیں ہے کہ اس اجلاس میں شریک ملکوں کے سربراہان اور دیگر مہمانوں کو اس بات سے بے خبر ہوں کہ بھارت میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔

ارون دھتی رائے نے کہا کہ امریکا، برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک کا میڈیا بھارت میں جو کچھ ہو اس پر تنقید کرتا ہے لیکن وہاں کی حکومتوں کا نقطہ نظر اس کے برعکس ہے، لہٰذا ایسا نہیں سوچنا چاہیے کہ بھارت میں جو سلوک اقلیتوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے وہ جی20 اجلاس میں آنے والے سربراہان مملک کے لیے واقعتاً کوئی مسئلہ ہو گا۔

جب ارون دھتی رائے سے پوچھا گیا کہ کیا وہ سمجھتی ہیں کہ جی20 اجلاس کے دوران مختلف ملکوں کے رہنما بھارتی حکومت سے اقلیتوں سے روا رکھے جانے والے ناروا سلوک کے خاتمے کا مطالبہ کریں گے تو انہوں نے کہا کہ وہ ایسی توقعات نہیں رکھتیں۔ انہوں نے کہا: ’جی20 اجلاس کے حوالے سے سب سے دلچسپ چیز حکومت کی تشہیری مہم ہے۔ اجلاس کی تیاریوں پر غور کرنے سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ جیسے بھارتی حکومت نہیں بلکہ بی جے پی اس اجلاس کی میزبانی کر رہی ہے۔ ہر بینر پر بڑے بڑے کنول کے پھول سجائے گئے ہیں جو مودی جی کی جماعت کا نشان ہے۔‘

انہوں نے کہا صرف ایک اجلاس کے لیے ہم سب کو گویا نظربند کر دیا گیا ہے، غریب عوام کو شہر سے دور رہنے کی ہدایت کی گئی ہے، کچی آبادیوں کو منظر نامے سے غائب کر دیا گیا ہے، یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ حقیقت سے آنکھیں چرا رہے ہوں اور آپ کو شہر کی اصل حالت پر شرمندگی ہو رہی ہو۔

ارون دھتی رائے نے کہا کہ اگر انہیں اس اجلاس میں تقریر کرنے کا موقع ملے تو وہ کہیں گی کہ 1.4 ارب کی آبادی والا ملک بھارت جو پہلے ناقص جمہوریت ہوا کرتا تھا اب اس کے لیے ’فاشزم‘ کی اصطلاح استعمال ہونی چاہیے، اور اگر دنیا یہ سمجھتی ہے کہ یہ فاشزم اسے متاثر نہیں کرے گا تو وہ غلطی پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2002ء میں بھارتی گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد ایک لمحہ ایسا آیا تھا جس میں برطانیہ جیسے ممالک کی انٹیلی جنس رپورٹس نے دراصل مودی کو نسل کشی کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا، مودی پر امریکہ کے سفر پر پابندی لگا دی گئی تھی لیکن اب وہ سب کچھ بھول گئے ہیں حالانکہ مودی اب بھی وہی آدمی ہے۔ ارون دھتی رائے نے کہا کہ جی20 اجلاس منعقد کروانے اور مختلف ملکوں کے طاقتور سربراہان کو بلانے کا سہرا جب بھی کوئی مودی کو دیتا ہے تو ہمارے چینلز اس پیغام کو ہزار گنا بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں جس سے اجتماعی قومی عدم تحفظ اور احساس کمتری میں اضافہ ہوتا ہے جو کہ انتہائی خطرناک ہے۔

جی 20 اجلاس میں کونسے ممالک شریک ہیں

جی 20 اجلاس میں دنیا کے 20 معاشی طور پر مضبوط ممالک کے سربراہان یا نمائندگان شرکت کر رہے ہیں۔ ان ممالک میں امریکہ، چین، روس، برطانیہ، فرانس، جرمنی، ترکی، اٹلی، جاپان، بھارت، ارجنٹینا، آسٹریلیا، سعودی عرب، برازیل، کینیڈا، جنوبی کوریا، انڈونیشیا، میکسکو، جنوبی افریقہ اور یورپی یونین شامل ہیں۔

اس اجلاس میں بھارت نے مصر، متحدہ عرب امارات، عمان، بنگلہ دیش، نائجیریا، سنگاپور، ہالینڈ، اسپین اور ماریشیئس کو بھی شرکت کی دعوت دی ہے۔

روس اور چین کے صدور اجلاس میں شریک نہیں

جی 20 اجلاس میں بیشتر رکن ممالک کے سربراہان شرکت کر رہے ہیں تاہم روس اورچین کے صدور اس سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں کررہے بلکہ ان کی جگہ چین کے وزیر اعظم اور روس کے وزیر خارجہ نمائندگی کررہے ہیں۔

جی 20 سربراہی اجلاس کے موقع پر روس اور بھارت کے مستقبل میں تعلقات سے متعلق بھی سوال جنم لے رہے ہیں۔ 2022ء سے جاری روس یوکرین جنگ پر بھارت کا ابھی تک کوئی سرکاری موقف سامنے نہیں آیا ہے۔ بھارت نے اس معاملے پر ابھی تک چپ سادھ رکھی تھی، تاہم کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جی20 سربراہی اجلاس میں دیگر ملکوں کے سربراہان روس یوکرین جنگ سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کریں گے اور ایسے میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو بھی اپنا موقف پیش کرنا پڑے گا۔

بھارت کے روس سے تعلقات کا رخ کس جانب مڑتا ہے یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے لیکن روسی صدر ولادی میر پیوٹن کا سربراہی اجلاس میں شرکت نہ کرنا اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں عالمی طاقتوں کی ترجیحات شاید بدل رہی ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp