سعودی ویژن 2030 تین ہزار ارب ڈالر کی لاگت سے سعودی عرب کی معیشت، ثقافت، سیاحت اور طرز زندگی کو بدلنے کا ایک منصوبہ ہے جس کے نیچے سینکڑوں منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچیں گے۔
اس منصوبے کے بنیادی اجزاء میں مالیاتی اداروں کی ترقی، خود انحصار معیشت، صحت عامہ کے شعبے میں تبدیلیاں، گھروں کی تعمیر، انسانی وسائل کی ترقی یا دوسرے معنوں میں انسانی صلاحیتوں کے فروغ کے لیے سازگار ماحول کی فراہمی، صنعت اور نقل و حرکت کے ذرائع کی ترقی، زرعی خود انحصاری، حج اور عمرہ زائرین کے لیے سہولیات کی دستیابی، نجکاری، عوامی سرمایہ کاری کے منصوبے، اور معیار زندگی کو بہتر کرنے کے منصوبے شامل ہیں۔

سعودی ویژن 2030 ہے کیا؟
اس ویژن کے تحت سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے قریب قدیہ میں تفریحی سرگرمیوں بشمول پرفارمنگ آرٹ، کھیل اور ثقافت کا ایک بہت بڑا مرکز قائم کیا جا رہا ہے۔ سعودی عرب کے مغرب میں واقع بحیرہ احمر کے ساحلی علاقوں اور جزیروں میں بیچ ریزارٹ بنائے جا رہے ہیں۔
اس منصوبے کا ایک بہت بڑا حصہ نیوم سٹی ہے جہاں پر 100 فیصد قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع استعمال کر کے ایسا شہر بنایا جائے گا جو نیچر اور کرہِ ارض کے ماحول کو آلودگی اور دیگر نقصانات سے محفوظ رکھے گا۔

اسی طرح سے سعودی شہریوں کے لیے گھروں کی طلب کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے شہر آباد کیے جائیں گے۔ سعودی عرب میں تاریخی مقامات کی سیر کے لیے بہتر ماحول بنایا جائے گا۔ صحت کی شعبے اور موروثی بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے سعودی جینوم پروگرام شروع کیا گیا ہے۔
سعودی ویژن 2030 ایک ایسا پروگرام ہے جو سعودی عرب کے لائف اسٹائل کو بالکل بدل کے رکھ دے گا اور اس میں ہر شعبہ زندگی کے لوگ کام کر سکتے ہیں۔

گزشتہ ماہ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ایک وفد نے جدہ میں پاکستانی قونصلیٹ کے ٹریڈ ڈویلپمنٹ فہد چوہدری کی دعوت پر سعودی عرب کا دورہ کیا تھا جس میں وفد کو بتایا گیا کہ اس بہت بڑے منصوبے سے نہ صرف پاکستانی لیبر بلکہ پاکستانی کاروباری افراد بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد
سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سعودی ویژن 2030 سے اصل فائدہ تب ہی اٹھایا جا سکتا ہے جب آپ کی مین پاور پڑھی لکھی اور ہنرمند ہو۔

انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ ویژن 2030 کے منصوبوں پر پاکستانی لیبر کام کر سکتی ہے اور ہم گزشتہ کئی دہائیوں سے خلیجی ممالک کو لیبر ایکسپورٹ کر رہے ہیں، لیکن ہم اپنے برادر اور خوشحال ملکوں سے تبھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جب ہم ان کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کریں، ان کو پاکستان میں صنعت، زراعت، سیاحت کے شعبوں میں منصوبے بنا کے دیں جن سے ملک میں خوشحالی آئے گی۔
مزید پڑھیں
انہوں نے کہا کہ میں تو مسلم ممالک کے ایک ایسے بلاک کی تجویز دیتا ہوں جو سیاسی، فوجی اور معاشی میدانوں میں ایک دوسرے کی مدد کریں۔ خلیجی ممالک کے اس وقت پاکستان سے زیادہ ہندوستان اور بنگلہ دیش سے مراسم اچھے ہیں، ہم پاکستان میں نظام کو بہتر کر کے ہی بیرونی سرمایہ کاری کو یہاں لا سکتے ہیں۔
سینیئر سفارت کار عبدالباسط
سینیئر سفارت کار عبدالباسط نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم سعودی ویژن 2030 سے ہر طریقے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، تین ہزار ارب ڈالر کے منصوبے ہیں جو 2030 تک مکمل ہونا ہے، ہمارا انفارمیشن ٹیکنالوجی کا شعبہ ہے، لیبر اینڈ مین پاور کا شعبہ ہے اور نیوم جو بالکل ایک نیا شہر بننے جا رہا ہے، جہاں ہماری ہنرمند اور غیر ہنرمند لیبر کام کر سکتی ہے اور اس میں وزارت انسانی وسائل اور وزارت خارجہ کا کردار اہم ہے لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارے سیاسی تعلقات اگر بہتر ہو جائیں تو ہم ان منصوبوں سے بہت فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ باقی سب باتیں بعد میں آتی ہیں، بنیادی بات آپ کے سیاسی تعلقات کا ہونا ہے جیسا کہ ہم دیکھ رہے کہ بھارت خلیجی اور وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ مل کر اقتصادی راہداری بنانے کی بات کر رہا ہے۔

عبدالباسط نے تجویز دی کہ یہ جو بیرونی سرمایہ کاری کے لیے ایس ایف آئی سی بنائی گئی ہے اس کا مینڈیٹ بڑھا دیں اور اس کے اندر لیبر اینڈ مین پاور کی ایکسپورٹ بھی شامل کر دیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری تعمیراتی کمپنیاں ایف ڈبلیو او اور این ایل سی دنیا کے دیگر ممالک میں کام کا تجربہ رکھتی ہیں وہ بھی اس وژن 2030 سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ لیکن تمام ادارے اسی وقت کام کریں گے جب مناسب سیاسی ماحول ملے گا۔
آفتاب میکن
معیشت کے شعبے پر رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافی آفتاب میکن نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت آپ پاکستان کے کسی پاسپورٹ دفتر میں چلے جائیں وہاں آپ کو زیادہ تر لوگ وہ ملیں گے جو ملازمت کے لیے سعودی عرب جا رہے ہیں۔
وژن 2030 ایک بہت اچھا موقع ہے اور پاکستان ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کی معیشت بری طرح سے متاثر ہو چکی ہے، لیبر اور مین پاور کی برآمد سے اچھا زرمبادلہ کما سکتا ہے جو ملکی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی ثابت ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی سابقہ حکومت نے جاپان اور جنوبی کوریا کے ساتھ لیبر ایکسپورٹ کے معاہدے کیے تھے لیکن بوجوہ پاکستان اتنی تعداد میں لیبر ایکسپورٹ نہیں کر پایا جس کی ضرورت تھی اور ان معاہدوں کی مدت ختم ہو گئی لیکن سعودی عرب میں چونکہ پہلے سے بہت سارے پاکستانی موجود ہیں اس لیے وہاں جب لیبر اینڈ مین پاور کی ضرورت پڑتی ہے تو لوگ یہاں سے جاتے ہیں۔
آفتاب میکن نے کہا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہنرمند لیبر کی ان ملکوں میں ضرورت ہے۔ پاکستانی حکومت کو اس سلسلے میں بہتر کردار ادا کر کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بھجوانا چاہیےْ جس سے ملک میں غربت اور بے روزگاری کا مسئلہ کم کیا جا سکے۔