کینیڈا کی ایک نجی یونیورسٹی کا آڈیٹوریم طلبا و طالبات سے کھچا کھچ بھرا ہوا ہے۔ اکثریت غیر ملکی طلبہ کی تھی۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے بیرون ملک سے آئے طلبہ کو کینیڈا میں درپیش مسائل سننے کے لیے ایک سیمینار کا انعقاد کیا ہوا ہے۔
پاکستان کے دگرگوں ہوتے معاشی، سیاسی اور مذہبی حالات کے پیش نظر نوجوان نسل میں ایک ناامیدی، بے چینی کی لہر پائی جاتی ہے جو انہیں اس ملک سے فرار ہونے کی تگ و دو میں مصروف رکھے ہوئے ہے۔ آج سے دو تین عشرے قبل ایسی صورتحال دیکھنے میں نہیں آئی لیکن آج برین ڈرین اپنے عروج پر ہے۔ کسی بھی نظام تعلیم سے وابستہ طلبہ اپنی تعلیم کے 10 سے 12 سال پاکستان میں جیسے تیسے مکمل کر کے بیرون ملک پرواز کرنے کے لیے پر تولنے لگتے ہیں۔ اگر ہمارے ملک کا نظام تعلیم بہتر، معاشی صورتحال موزوں اور ثقافتی گھٹن کم ہوتی تو کیوں ہم اپنے بچوں کو خود سے دور بھیجنے پر خوشی محسوس کرتے؟
اسپیکرز میں 6 ممالک کے بچوں نے انتظامیہ کے روبرو اپنے مسائل اور مشکلات بیان کرنے کے لیے نام درج کروایا ہے۔ جس میں ایک اسپیکر میری بیٹی بھی ہے، جو پاکستانی طلبہ کے مسائل پر بات کرنے کے لئے منتخب ہوئی ہے۔ میں آن لائن وہ سیمینار پاکستان میں بیٹھ کر دیکھ رہی ہوں۔
میری بیٹی کے مسائل کا لب لباب کچھ یوں ہے!
کینیڈا آنا میرے لیے ’ڈریمز کم ٹرو‘ والی بات تھی۔ لیکن یہاں آنے کے بعد اندازہ ہوا کہ زندگی پھولوں کی سیج کہیں بھی نہیں ہے۔ کینیڈا کی مشکلات کی نوعیت مختلف ہے کہ میرے جیسے تقریباً ہر طالب علم کو کئی ذمہ داریاں بیک وقت اٹھانی پڑتی ہیں۔ ہم جیسے ممالک سے آنے والے وہ بچے جو ایک متوسط یا تنخواہ دار طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمارے والدین اپنا پیٹ کاٹ کر ہماری فیس اور رہنے سہنے کے اخراجات برداشت کرتے ہیں ان کے لیے زندگی یہاں کینیڈا میں بھی کٹھن ہے۔ خاص کر پاکستان کی خستہ حال معیشت کی وجہ سے ڈالر کی قیمت دن بدن بڑھ رہی ہے اور اسی طرح ہر سال فیس میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ لیکن اتنی بھاری فیس لینے کے باوجود ہمیں بیشتر اساتذہ یا انتظامیہ کی جانب سے کوئی خاص رہنمائی میسر نہیں۔ سمسٹر شروع ہونے سے پہلے اپنی فیلڈ کے مضامین منتخب کرنا ایک شدید ذہنی کوفت کا باعث ہوتا ہے کہ کب کی تاریخ ملے گی۔ کیونکہ تاخیر سے تاریخ ملنے پر غیر موزوں مضامین ہی باقی بچتے ہیں۔ اگر اتنی فیس دے کر بھی میں اپنی مرضی اور دلچسپی کا کورس نہ پڑھ سکوں تو یہ اس نظام کی خرابی ہے۔
دوسرا سنجیدہ مسئلہ رہائش کا ہے جو کہ انتہائی مہنگی ہونے کی بنا پر طلبہ کی اکثریت کو دو دو جابز کر کے ادا کرنی پڑتی ہے۔ طلبہ کے لہے پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ شدید سردی، برف باری اور بارش میں روزانہ گھنٹوں بسوں کا انتظار اور سفر طلبہ کی توانائیوں کو نچوڑ دیتا ہے۔ اسٹوڈنٹس کے لیے بیماری کی صورت میں ڈاکٹر کی اپائمنٹ لینا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ جبکہ ہیلتھ انشورنس کے نام پر ہر ماہ ایک خاطر خواہ رقم خود بخود ہمارے بینک اکاؤنٹ سے کاٹ لی جاتی ہے۔
سب سے تکلیف دہ صورتحال ایک اسٹوڈنٹ کے لیے تب ہوتی ہے جب ایک بھی پرچہ میں فیل ہوجانے کی صورت میں یونیورسٹی پورے سمسٹر کی فیس چارج کرتی ہے اور ہماری التجا سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اب کسی نہ کسی طرح رقم کا بندوبست کرنا پڑتا ہے۔ یہ سارا عمل ایک طالب علم پر منفی نفسیاتی اثرات کا باعث بنتا ہے۔ ایسے مسائل کے سدباب کے لیے یونیورسٹی انتظامیہ کو ایک موثر حکمت عملی مرتب کرنی چاہیے۔
کم و بیش یہی ساری شکایات دیگر طلبہ نے بھی کیں۔
سیمینار میں اپنی بیٹی کی زبانی یہ ساری باتیں سن کر میں کئی دن اسی شش و پنچ میں رہی کہ آیا کس ملک کا نظام تعلیم بہتر ہے یا کس ملک میں مسائل کم اور وسائل زیادہ ہیں۔
یقیناً آپ کے ذہن میں بھی یہی سوال ہوگا کہ اگر بیرون ممالک میں بھی مسائل موجود ہیں تو کیا وجہ ہے کہ نئی نسل پھر بھی وہاں جانے کے لئے بے چین ہے اور ان کے والدین بھی ان کے اس فیصلہ میں معاون ہیں؟
سچ پوچھئے تو اسکا کوئی حتمی جواب نہیں لیکن کیا یہ تسلی بخش بات نہیں کہ کم از کم وہاں کا تعلیمی نظام اپنے طلبہ کی مشکلات سے آگاہ ہونے اور ان کے سدباب کے لیے ایسے سیمینار تو منعقد کرتا ہے۔ بطور ایک ماں اور عورت کے مجھے بہرحال یہ اطمینان ضرور ہے کہ میری بیٹی ایک سیکولر، روشن خیال، انسان دوست، محفوظ اور خوشحال معاشرے میں جی رہی ہے۔
مذہبی شدت پسندی اور رجعت پسندی کا براہِ راست تعلق ملک کی معیشت سے جڑا ہوتا ہے۔ منصفانہ معاشی حالات، یکساں روزگار کی فراہمی اور صحتمند تفریح کے ذرائع ملک سے ہر قسم کی شدت پسندی کو کم کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
بد قسمتی سے ہمارے ملک میں یہ تینوں لوازمات ناپید ہوتے جارہے ہیں تو نئی نسل کا بیرون ملک جا بسنے کا فیصلہ کون سا اچنبھے کی بات ہے؟۔
اگر اپنے ارد گرد کے حالات کا جائزہ لیں تو جا بجا ایسے واقعات آئے روز رونما ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ یہاں جان بوجھ کر نوجوانوں کے لیے زندگی محال کی جا رہی ہے۔ خاص کر لڑکیوں کے لیے یہ معاشرہ ایک جیل بن چکا ہے۔ پاکستان کے دارالحکومت تک میں راہ چلتی عورت، لڑکی کو سرعام ہراساں کرنا معمول کی بات ہے۔ پیدل چلتی لڑکیاں آپ کو خال خال ہی نظر آئیں گی۔ تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کے ساتھ کیسا سلوک ہوتا ہے یہ چند ہفتوں قبل اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے اسکینڈل سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں، یا 4 سال پہلے لاہور کے ایک نجی پرائیوٹ اسکول کے ایک ٹیچر کی نوعمر بچیوں کے ساتھ نازیبا حرکات کی کہانی سب کے سامنے عیاں ہونے کے باوجود کیا ہوا؟ کتنی صفائی سے تمام گندگی کو کارپٹ کے نیچے چھپا دیا گیا۔
مشال خان کی اپنے ہی ہم جماعتوں اور درسگاہ کے دیگر افراد کے ہاتھوں دردناک موت کو کیا ہم بھلا سکتے ہیں؟ یہاں نوجوانوں کو سوال کرنے یا آزادی سے سوچنے کی بدترین سزا توہین مذہب یا غداری کے ٹیگ لگا کر باآسانی دی جاسکتی ہے۔
حالانکہ یہ صرف چند واقعات ہیں جو منظر عام پر آسکے ہیں ورنہ ہماری ہش ہش پالیسی کے پیش نظر کتنے ہی حادثات کو دبا دیا جاتا ہوگا اس کا ادراک ہم سب کو بخوبی ہے۔
ثقافتی گھٹن کا اندازہ اس سے لگائیے کہ قطع نظر کہ تعلیمی ادارے گورنمنٹ کے ہوں یا پرائیوٹ، لڑکے لڑکیوں کے آپس کے میل جول کو فحاشی قرار دے کر اس پر پابندی عائد کی جارہی ہے۔ جب دو جنس کے باہمی رابطوں کو فحاشی کے زمرے میں لایا جائے گا تو یہی فرسٹریشن معصوم بچے بچیوں کے ریپ کی صورت میں ہمیں معاشرے میں جابجا نظر آتی رہے گی۔ دوسری جانب مدارس میں معصوم بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیوں کی ویڈیو آئے دن سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی رہتی ہیں۔ جب روک تھام کا کوئی طریقہ کار وضع ہی نہیں کیا گیا تو یہ ساری حرکات اسی طرح جاری ہیں۔
تعلیمی دور کے بعد نوجوانوں کے لیے روزگار کا حصول اس ملک کا اہم مسئلہ رہا ہے۔ پاکستان کے تباہ شدہ معاشی حالات اور غربت کی بڑھتی ہوئی شرح کے باعث یہ مسئلہ اب ایک خوفناک صورتحال میں تبدیل ہو چکا ہے۔ لیکن ہمارے کرتا دھرتا شتر مرغ کی مانند ریت میں مسلسل منہ چھپائے بیٹھے ہیں۔
یکساں تفریحات کے مواقع ان ہی معاشروں کا مقدر ہوتے ہیں جہاں معاشی، سماجی اور مذہبی حالات رواداری پر مبنی ہوں تو پاکستانیوں کو تفریح کی بابت سوچنے کا تو اب حق بھی نہیں رہا ہے۔
یہی وہ وجوہ ہیں کہ نئی نسل اسی حبس زدہ ماحول سے فرار چاہتی ہے، بات صرف موقع ملنے کی ہے۔
جہاں تک بات تعلیمی نظام کی ہے تو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں یہ نظام سوائے ایک منافع بخش کاروبار کے اور کچھ نہیں رہا۔ اگر آپ ایک ایلیٹ گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں تو دنیا کی کسی بھی ٹاپ کلاس یونیورسٹی میں داخلہ اور ڈگری حاصل کرنا آپ کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ لیکن اگر آپ کا تعلق ایک متوسط طبقہ سے ہے تو مشکلات ہر جگہ آپ کا استقبال کرنے موجود ہوں گی۔
پاکستان میں میٹرک سسٹم ہو برٹش او، اے لیول یا چاہے آئی بی سسٹم، ہر ادارے میں اچھے اور تعلیم یافتہ اساتذہ کی کمی ہے۔ ایک بھیڑ چال ہے۔
اصل میں یہ سب بزنس ہیں نظام نہیں۔ طرح طرح کے ایجوکیشن سسٹم ، بھانت بھانت کے دماغی اہلیت ( aptitude tests )کو جانچنے والے مہنگے ٹیسٹ صرف پیسہ کھینچنے سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
لیکن سب جانتے ہوئے اور نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں اسی سسٹم کے گرد چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔ چوہا دوڑ کو جاری رکھنا پڑتا ہے۔
صرف اس لیے کہ اپنے بچوں کو یہاں سے نکال سکیں۔ کیوں؟ اس کا میرے پاس واقعی ایک مدلل جواب موجود ہے۔
آج اگر میری بیٹی کینیڈا کی ایک یونیورسٹی انتظامیہ کے روبرو اپنی مشکلات اور مسائل کو اجاگر کرسکتی ہے، سوالات اٹھا سکتی ہے، نظام کی خرابی پر کھل کر بات کرسکتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہاں اسے سوال کرنا سکھایا جارہا ہے۔
یخ بستہ سنسان راتوں میں، کام یا کلاس سے واپسی پر ایک آدھ گھنٹہ بس اسٹاپ پر تن تنہا ایک لڑکی خود کو محفوظ محسوس کرتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اسے وہاں ایک انسان ہونے کا رتبہ حاصل ہے۔
وہاں کے مرد اسے اُس کے لباس کے چناؤ پر ایک ٹافی یا برفی نہیں بلکہ ایک مکمل انسان سمجھتے ہیں، اس کے سرعام ہنسنے، بولنے، کھلکھلانے پر جج نہیں کرتے تو سمجھئے کہ وہ زندگی جی رہی ہے۔
دنیا میں سب سے اہم بات ہی یہ ہے کہ زندہ تو سب ہیں لیکن زندگی جیتے بہت کم لوگ ہیں۔