ٹیکنالوجی پرکام کرنے والے انجینیئرز نے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے ایک ایسا آلہ تیار کیا ہے جس نے نابینا افراد کی تمام تر مشکلات حل کر دی ہیں، نابینا افراد اب اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے لکھ، پڑھ اورپہچان سکتے ہیں۔
ٹیکنالوجی کی دُنیا میں اس آلے کو نابینا افراد کے لیے انقلابی ایجاد قرار دیا جا رہا ہے، ’اورکیم مائی آئی‘ کے نام سے تیار یہ آلہ عینک پر فکس کیا جاتا ہے، جو ہر طرح کی تحریر پڑھنے، رنگوں کو پچاننے، اپنے خاندان کے افراد کو جاننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
’اورکیم‘ کمپنی کے بزنس ڈیولپمنٹ مینیجر ڈیلفین نبیتھ نے وضاحت کی کہ “بنیادی طور پر یہ انسانیت کی بھلائی کے لیے بنایا گیا ایک منصوبہ ہے جو کچھ موبائل انجینیئروں کی انتھک محنت کی بدولت تیار کیا گیا ہے، جن کا مقصد ہی ان لوگوں کی مدد کرنا ہے جو پڑھنا اور کام کرنا چاہتے ہیں لیکن و ہ دیکھ نہیں پاتے اور اپنے پیاروں کو جان نہیں پاتے۔
’اورکیم مائی آئی ‘ نامی اس آلے کی بدولت نابینا افراد اپنے آس پاس کی دنیا کو چانچنے اور اپنے چلنے پھرنے کی آزادی کو دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ’اور کیم مائی آئی ‘ آلہ پہننے والا اخبارات، کتابیں، سائن بورڈز، صارفین کی مصنوعات پر لیبل پڑھ سکتا ہے۔
اس کے علاوہ وہ کرنسی کی شناخت کرسکتا ہے اور یہاں تک کہ کمپیوٹر یا اسمارٹ فون کی اسکرین پر کسی بھی وقت اور کہیں بھی متن پڑھ سکتا ہے۔ مائی آئی چہرے کی شناخت کی صلاحیت بھی رکھتا ہے، یہ آلہ پہننے والا نابینا شخص دوستوں اور اپنے خاندان کے افراد کی شناخت کرنے کی بھی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
’اور کیم مائی آئی‘2 کا وزن 79 اونس ہے اور یہ ایک چھوٹے مقناطیسی کلپ کے ساتھ پہننے والے کی اپنی عینک سے منسلک کر دیا جاتا ہے۔ ہاتھ کے سادہ اشارے جیسے چھونا یا سوائپ کرنا ، یا کسی متن کو پڑھنے میں مدد فراہم کرتا ہے ۔ مائی آئی 2 میں رنگ کی شناخت کرنے کی بھی صلاحیت رکھی گئی ہے۔ یہ پیدل چلنے والوں کی کراسنگ لائن پر سرخ اور سبز سگنل بھی پڑھ سکتا ہے۔ یہ آلہ یہ بھی بتا سکتا ہے کہ آپ نے کس رنگ کے کپڑے پہن رکھے ہیں۔
ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ آلہ ایک امون نامی انجینیئر نے تیار کیا جس کی اپنی خالہ نابینا ہو چکی تھی اور وہ انہیں اس قابل بنانا چاہتے تھے کہ وہ سب دیکھ اور محسوس کر سکیں اور تحریر پڑھ سکیں۔
خاتون کے بھتیجے انجینیئر امون نے فیصلہ کیا کہ وہ انسانیت کی بھلائی کے لیے موبائل جیسا کوئی حل تلاش کرے، چنانچہ انہوں نے پہلے نابینا افراد کا انٹرویو کیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ وہ سب سے زیادہ اپنی زندگی میں کس چیز کو مس کر رہے ہیں تو نابینا افراد میں سے سب سے زیادہ نے پڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا، لہٰذا انجینیئرز نے ترجیح کے طور پر اس پہلو پر توجہ مرکوز کر کے یہ اورکیم مائی آئی کے نام سے آلہ ایجاد کر دیا۔
یہ آلہ اس وقت مارکیٹ میں آ چکا ہے اسرائیل، امریکا، آسٹریلیا، سعودی عرب، بھارت اور افریقی ممالک میں یہ آلہ دستیاب ہے اور اسے لوگ استعمال کر رہے، آسٹریلیا میں نابینا بچوں کے اسکولوں میں اس آلہ کو باقاعدہ حکومتی سطح پر مفت تقسیم کیا گیا ہے۔