اسلام آباد کی احتساب عدالت نے القادر ٹرسٹ کیس میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عبوری ضمانت میں 26 ستمبر تک توسیع کر دی ہے۔
آج صبح کیس کی سماعت کا آغاز ہوا تو بشریٰ بی بی کے وکیل لطیف کھوسہ نے احتساب عدالت کے جج محمد بشیر سے مخاطب ہو کر کہا کہ آج آپ کو دوبارہ تکلیف دینے کے لیے آئے ہیں۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ القادر ٹرسٹ کیس میں نیب نے بیان دیا تھا کہ اسے فی الوقت گرفتاری مطلوب نہیں، آج بشریٰ بی بی کی چیئرمین پی ٹی آئی سے اٹک جیل میں دن 2 بجے ملاقات ہے اور نیب نے بھی انہیں اسی وقت طلب کر رکھا ہے۔
وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت سے استدعا کی کہ نیب سے کہا جائے وہ کسی اور دن پیشی رکھ لے۔
نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے عدالت کو بتایا کہ نیب نے بشریٰ بی بی کو 11 بجے طلب کر رکھا تھا، القادر کیس میں نیب کو ابھی بشریٰ بی بی کی گرفتاری مطلوب نہیں۔
سردار مظفرعباسی نے کہا کہ نیب پیشی کا معاملہ عدالت کے سامنے نہیں، اگر دن تبدیل کروانا ہے تو نیب میں درخواست دائر کر دیں۔
لطیف کھوسہ نے عدالت سے استدعا کی کہ اگر نیب کو گرفتاری مطلوب ہو تو پہلے آگاہ کیا جائے، انہوں نے القادر ٹرسٹ کیس میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست بھی دائر کی۔
عدالت نے القادر ٹرسٹ کیس میں فریقین کو 26 ستمبر کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے بشریٰ بی بی کی ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کر لی۔
‘توشہ خانہ جعلی رسیدوں کا کیس: ’یہ واحد کیس ہے جو ہم ایمانداری سے چلانا چاہتے ہیں
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے چیئرمین پی ٹی آئی کی اہلیہ کے خلاف توشہ خانہ جعلی رسیدوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
کیس کی سماعت کے لیے بشریٰ بی بی اپنے وکلا کے ہمراہ ایڈیشنل سیشن جج طاہر عباس سپرا کی عدالت میں پیش ہوئیں۔
تفتیشی افسر محمد صفدر نے عدالت کو بتایا کہ پراسیکیوٹر طاہر کاظم 12 بجے تک پہنچ جائیں گے۔ عدالت کے کہنے پر 12 بجے تک وقفہ کیا گیا جس کے بعد کیس کی دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا۔
بشریٰ بی بی کے وکیل سلمان صفدر نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ کیس کی ایف آئی آر پڑھنا چاہتے ہیں۔ پراسیکیوٹر طاہر کاظم نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھی کچھ کہنا چاہتے ہیں۔
پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ایک آڈیو تھی جو ایف آئی اے کو بھیجی ہے، یہ آڈیو ان کے فائدہ میں ہو سکتی ہے، فرانزک میں ممکن ہے کہ آڈیو میچ ہی نہ ہو تب گرفتاری ہی مطلوب نہیں ہو گی۔
جج طاہر عباس سپرا نے ریمارکس دیے کہ بظاہر پراسیکیوشن کی جانب سے تاخیر کی جارہی ہے، پہلے کبھی پراسیکیوشن نہیں ہوتی اور آج آڈیو کی بات کی جا رہی ہے، دوران تفتیش سوال جواب ہوئے تواس وقت آڈیو کی میچنگ کے لیے ایف آئی اے سے کیوں نہیں رابطہ کیا گیا۔
پراسیکیوٹر طاہر کاظم نے کہا کہ ملزم خاتون ہے اس لیے ریمانڈ تو ہونا نہیں ہے، جب تک ایف آئی اے کے سامنے پیش نہیں ہوں گے تو میچنگ کیسے ہو سکتی ہے؟
بشریٰ بی بی کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ ایف آئی آر پڑھیں یہ کیس جعلی رسیدوں کا ہے تو آڈیو لیکس کہاں سے آگئیں۔
مزید پڑھیں
جج طاہر نے ان سے استفسار کیا کہ اچھا یہ بتائیں کہ کبھی آپ کی مدعی نسیم الحق سے ملاقات ہوئی ہے؟ ان کے استفسار پر کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔
پراسیکیوٹر طاہر کاظم نے عدالت کوبتایا کہ یہ واحد کیس ہے جسے ہم ایمانداری سے چلانا چاہتے ہیں۔ اس پر عدالت نے کہا کہ آپ جو کہنا چاہتے ہیں اس کے لیے آپ نے الفاظ کا چناؤ ٹھیک نہیں کیا۔
پراسیکیوٹر نے عدالت سے استدعا کی کہ بشریٰ بی بی کو ایف آئی اے کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی جائے۔
عدالت نے بشریٰ بی بی کی عبوری ضمانت میں 26 ستمبر تک توسیع کردی۔
‘آڈیو لیکس کیس: ’فون تو سب کے ہی ٹیپ ہو رہے ہیں
اسلام آباد ہائیکورٹ نے بشریٰ بی بی کی آڈیو لیکس کیس کے خلاف درخواست پر سماعت 18 ستمبر تک ملتوی کر دی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابرستار نے درخواست پر سماعت کی۔ عدالت نے بشریٰ بی بی اور زلفی بخاری کی آڈیو لیک سے متعلق درخواستیں پہلے سے زیرسماعت نجم الثاقب کی درخواست کے ساتھ یکجا کر دیں۔
جسٹس بابر ستار نے بشریٰ بی بی کے وکیل لطیف کھوسہ سے کہا کہ آپ کی درخواست پر نوٹس کر رہے ہیں، اسی نوعیت کے دوسرے کیس کے ساتھ سنیں گے، کھوسہ صاحب آپ نے کیا درخواست دائر کی ہے؟
وکیل لطیف کھوسہ کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے فون مسلسل بَگ کئے جا رہے ہیں، جسٹس بابرستار نے کہا کہ وہ تو سب کے ہی ہو رہے ہیں اس میں کون سی بڑی بات ہے، آپ کی درخواست پر اعتراض ہے کہ آپ نے کوئی آرڈر چیلنج ہی نہیں کیا۔
لطیف کھوسہ نے بتایا کہ پولیس اور ایف آئی اے بشریٰ بی بی کو مسلسل ہراساں کر رہی ہیں، عدالت نے کہا کہ فون ٹیپنگ کی قانونی حیثیت ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں سے معلومات کا ذریعہ نہیں پوچھا جا سکتا، قانون شہادت کے اس پہلو پر بھی آئندہ سماعت پر عدالتی معاونت کریں۔
لطیف کھوسہ نے عدالت سے استدعا کی کہ ایف آئی اے کو آئندہ سماعت تک ہراساں کرنے سے روکا جائے، جسٹس بار ستار نے ریمارکس دیے کہ وہ ایسا آرڈر پاس کریں گے جس پر وہ عملدرآمد کروا سکیں۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ہراسگی ایک وسیع ٹرم ہے، کل آپ توہین عدالت کی درخواست لے کر آ جائیں گے۔ عدالت نے کیس کی سماعت 18 ستمبر تک ملتوی کر دی۔