کیا چیف جسٹس ریٹائرمنٹ کے بعد 6 ماہ تک فیصلے تحریر کر پائیں گے؟

منگل 12 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ آف پاکستان کے موجودہ چیف جسٹس، جسٹس عمر عطا بندیال 16 ستمبر کو اپنے عہدے کی مدت مکمل کر کے ریٹائر ہو جائیں گے، چند ایسے مقدمات رہ گئے ہیں جن کے فیصلے جاری ہونا ابھی باقی ہیں، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور الجہاد ٹرسٹ کیس کے نظائر کی رو سے سپریم کورٹ کے ریٹائر ہونے والے ججز 6 ماہ تک فیصلے تحریر کر سکتے ہیں۔

دوسری طرف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے کیس میں جسٹس منیب اختر کی اقلیتی رائے بھی موجود ہے جہاں انہوں نے جسٹس منظور ملک کے بعد از ریٹائرمنٹ فیصلہ تحریر کرنے کے عمل کو ہدف تنقید بنایا تھا اور انہوں نے لکھا تھا کہ یہ فیصلہ 6 نہیں 5 ججوں کا فیصلہ ہے کیونکہ جسٹس منظور ملک ریٹائر ہو چکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ چیف جسٹس، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس قاضی محمد امین احمد نے بھی جسٹس منیب اختر کی اس رائے کی حمایت کی تھی۔

دھیمے مزاج کے موجودہ چیف جسٹس نے گزشتہ روز نئے عدالتی سال کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ مقدمے بازی نے سپریم کورٹ کی کارکردگی کو متاثر کیا اور ہم ایک قدم پیچھے ہٹ گئے، لیکن سپریم کورٹ کے اس طرزِ عمل کو بھی ہدف تنقید بنایا جاتا ہے کہ وہ اپنے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کرا سکی۔

اب بات کرتے ہیں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے کچھ ایسے مقدمات کی جن کے تفصیلی فیصلے آنا باقی ہیں اور اس میں دیکھنا یہ ہے کہ آیا وہ ان مقدمات کے فیصلے آئندہ 3 روز میں تحریر کر پائیں گے یا نہیں؟

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ

ہمیں زبانی طور پر ان کے خیالات معلوم ہیں جس میں وہ گزشتہ حکومت کے جاری کردہ قانون کے ایک حصے سے اتفاق کرتے ہیں جبکہ دوسرے سے اختلاف، لیکن خیالات ضبطِ تحریر میں آنے کے بعد ہی مجسم ہوتے ہیں اور اس کے بعد ہی وہ قانونی حیثیت اختیار کرتے ہیں۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ چیف جسٹس پر پابندی عائد کرتا ہے کہ وہ اپنے علاوہ دو اور سینیئر ترین ججز کی مشاورت سے ازخود اختیارات کا استعمال کریں گے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال مذکورہ ایکٹ کی اس شق سے اتفاق کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ بارہا سماعتوں کے دوران وہ اس بات کا اعادہ کر چکے ہیں کہ ’اب ہم نے سو موٹو نوٹس لینا چھوڑ دیے ہیں‘ اور یہ بھی کہ ’سو موٹو اب مشاورت کے بغیر نہیں لیا جا سکتا‘۔

جہاں تک اس قانون کے دوسرے حصے کی بات ہے وہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے بینچوں کی تشکیل کے معاملے پر بھی چیف جسٹس پر پابندی عائد کرتا ہے کہ بینچوں کی تشکیل بھی چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ کے سینئر ترین ججوں پر مشتمل تین رکنی کمیٹی کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں سیاسی جماعتیں انصاف نہیں من پسند فیصلے مانگتی ہیں: چیف جسٹس عمر عطا بندیال

مذکورہ ایکٹ کے بعض دیگر پہلوؤں کے ساتھ ساتھ خصوصی طور پر بینچوں کی تشکیل کے معاملے میں سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ نے 13 اپریل کو پارلیمنٹ کے منظور کردہ اس قانون پر حکم امتناع جاری کر دیا تھا جو تا حال قائم ہے۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے حکم امتناع جاری کرتے ہوئے اس قانون کو عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دیا تھا اور حال ہی میں آڈیو لیکس کمیشن کے حوالے سے سماعت کرنے والے بینچ پر اٹھائے گئے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے جسٹس بندیال نے جو فیصلہ جاری کیا اس میں بھی انہوں نے مذکورہ ایکٹ کو عدلیہ کی آزادی کے منافی قرار دیا۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ اس قدر ضروری ہے کہ اس قانون کی وجہ سے آنے والے چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اس سال اپریل سے خود کو چیمبر ورک تک محدود کر لیا اور کسی بینچ میں شمولیت یا سربراہی نہیں کی۔ فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے معاملے پر جب جسٹس بندیال نے 9 رکنی بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو شامل کیا تو انہوں نے کہاکہ پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے حوالے سے کوئی فیصلہ کیا جائے، بصورت، دیگر وہ اس بینچ کی قانونی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے۔

اسی طرح جسٹس منصور علی شاہ نے بھی اس معاملے میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی حمایت کی اور حال ہی میں نیب ترامیم مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے انہوں نے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فیصلہ کیا جائے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا آنے والے 3 دنوں میں چیف جسٹس، جسٹس عمر عطا بندیال اس مقدمے کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرتے ہیں یا نہیں۔

نیب ترامیم کیس

یہ ایک انتہائی اہم مقدمہ ہے جس میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے نیب قانون میں لائی جانے والی ترامیم کو چیلینج کیا ہے، چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے اس مقدمے پر طویل سماعتوں کے بعد گزشتہ ہفتے بالآخر اس کا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

اس مقدمے کی سماعتوں کے دوران چیف جسٹس نے بارہا یہ سوال اٹھایا کہ ان ترامیم کا فائدہ کسے حاصل ہو گا، جبکہ جسٹس منصور علی شاہ اس بات پر اصرار کرتے رہے کہ ہم پارلیمنٹ کے منظور کردہ قانون کو صرف اسی صورت کالعدم کر سکتے ہیں اگر بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہو۔ رواں ہفتے کا جمعہ چیف جسٹس، جسٹس عمر عطا بندیال کا آخری ورکنگ ڈے ہے، اور توقع یہ کی جا رہی ہے کہ نیب ترامیم کے معاملے میں جلد فیصلہ آ سکتا ہے۔

فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل

سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے حوالے سے بھی پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور دیگر درخواست گزاران کی درخواستیں بھی اس بینچ کے پاس زیر التوا ہیں جس کی سربراہی چیف جسٹس بندیال کر رہے ہیں، اس مقدمے میں سپریم کورٹ وفاقی حکومت کی جانب سے فل کورٹ بنانے کی درخواست مسترد کر چکی ہے، سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے طریقہ کار پر سیر حاصل بحث ہو چکی ہے لیکن اس مقدمے میں کوئی فیصلہ جاری ہوتا ہے یا نہیں اس کے حوالے سے دیکھنا پڑے گا۔

ارشد شریف قتل کیس

معروف صحافی ارشد شریف کے قتل پر جسٹس عمر عطا بندیال نے سوموٹو نوٹس لیا تھا۔ 13 جون کو اس مقدمے کی آخری سماعت میں ارشد شریف کی والدہ کی جانب سے دائر ایک درخواست جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے اس قتل کے سلسلے میں پوچھ گچھ کی جائے کیونکہ انہوں نے دعوٰی کیا تھا کہ وہ اس قتل کے بارے میں کچھ معلومات رکھتے ہیں، تاہم سپریم کورٹ نے یہ درخواست مسترد کر دی تھی اور اس مقدمے کی تفتیش کے لیے قائم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم سے تفتیش میں ہونے والی پیش رفت پر رپورٹ مانگی تھی۔ اس کے بعد تاحال اس مقدمے کو دوبارہ سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp