دہشت گرد ایک ماہ تک کراچی پولیس آفس کی جاسوسی کرتے رہے

ہفتہ 18 فروری 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کراچی میں جمعہ کی شام  جیسے ہی دہشت گردوں نے کراچی پولیس چیف کے دفتر پر حملہ کیا، اور اس حملے کی خبر ملنے کے فورا بعد  سی سی پی او آفس میں مانیٹرنگ سیل بنا دیا گیا، وزیراعلی سندھ  سید مراد علی شاہ نے اس مانیٹرنگ سیل میں بیٹھ کر بذات خود سارے آپریشن کی نگرانی کی۔

دہشت گردوں  کے خلاف آپریشن میں پہلے سندھ پولیس بروئے کار آئی ، اس کے بعد رینجرز کے اہلکار اور فوج کے ایس ایس جی کمانڈوز بھی شامل ہوگئے ۔  دہشت گردوں کے حملے اور مقابلے میں رینجرز اور پولیس اہلکار سمیت چار افراد شہید ، 19 زخمی ہوگئے۔ جبکہ تین دہشت گرد بھی ہلاک ہوئے۔

رینجرز حکام  کے مطابق کراچی پولیس چیف آفس پر دہشتگردوں کے حملے کی اطلاع ملتے ہی رینجرز کی کوئیک رسپانس فورس کے اہلکار مو قع پر پہنچ گئے۔ انسداد دہشتگردی ونگ قلندر فورس کے بریگیڈئیر توقیر نے آپریشن کی قیادت کی۔

رینجرز کے انسداد دہشتگردی ونگ قلندر فورس کے بریگیڈئیر، وِنگ کمانڈرز اور رینجرز کے جوانوں نے آپریشن میں حصہ لیا، رینجرز کی انسداد دہشتگردی ونگ کی جانب سے مشترکہ کارروائی کے مرحلہ وار پولیس آفس کی بلڈنگ کلیئر کی گئی۔

دہشتگردوں سے مقابلے کے دوران رینجرز کے سب انسپکٹر تیمور شہید جبکہ 7 جوان زخمی ہوئے۔ جبکہ 3 دہشتگرد ہلاک ہوئے۔ ہلاک دہشتگرد خود کش جیکٹیں پہنے ہوئے تھے، جدید اسلحہ کے ساتھ دہشتگردوں نے ہینڈ گرنیڈوں کا بھی استعمال کیا۔

حکومتی ، سیاسی شخصیات کا ردعمل

ملک کی سیاسی شخصیات نے واقعے پر رنج اور افسوس کا اظہار کیا ۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کے پی او حملے کی مذمت کرتے ہوئے واقعے کی رپورٹ بھی طلب کی  ، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گا۔

سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے پیغام میں  سندھ پولیس اور رینجرز کے جوانوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ مختصر وقت میں آپریشن مکمل کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ پولیس ، رینجرز اور فوج کے جوان ہمارا فخر اور قیمتی اثاثہ ہیں۔

گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری ، پاکستان تحریک انصاف کے رہنما علی زیدی اور ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نےبھی اپنے الگ الگ بیان میں کراچی پولیس چیف کے دفتر پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

دہشت گرد کون تھے؟

بم ڈسپوزل اسکواڈ کی رپورٹ کے مطابق ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کے جسم پر آٹھ سے دس کلو گرام کی دو خود کش جیکٹیں تھیں ، اس کے علاوہ آٹھ دستی بم اور تین گرنیڈ لانچر بھی ملے جبکہ ایک خود کش دہشت گرد نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا۔

تفتیشی حکام کے مطابق دہشت گردوں کےقبضےسےدوایس ایم جیز ملیں، ایک ایس ایم جی سےنمبر مٹا ہوا ہے۔ ملنے والی کلاشنکوف کے بٹ پرلال رنگ لگا ہوا تھا۔ حملہ آوروں نے 4 دستی بم  استعمال کئے جو پھٹے نہیں ۔ ملنے والے چاروں دستی بموں کی پنیں نکلی ہوئی تھیں، دھماکےسےہلاک حملہ آور کے پاس بھی دستی بم تھا۔

سندھ پولیس کے مطابق تین دہشت گردوں میں سے دو کا تعلق شمالی وزیرستان سے ہے۔ انھیں تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے تیار کیا گیا تھا۔ دہشت گردوں کی شناخت زالا نور، عنایت اللہ اور مجید بلوچ کے نام سے ہوئی ہے۔

حملے میں استعمال ہونے والی  کار کے مالک کامران کو بھی پولیس نے حفاظتی تحویل میں لے لیا ۔ وہ بھینس کالونی نمبر چھ کا رہائشی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اپنی  کار شو روم  کو فروخت کرچکا تھا۔

حملہ آور کے پی او میں کیسے داخل ہوئے ؟

 کراچی پولیس آفس صدر پولیس تھانے کے عقب میں شہر کی مرکزی سڑک شارع فیصل سے متصل ہے ۔ یہاں کراچی پولیس کے چیف جاوید عالم اوڈھو بیٹھتے ہیں ۔ شہر بھر کا سکیورٹی نظام اسی عمارت میں قائم مانیٹرنگ سیل سے کنٹرول کیا جاتا ہے ۔ کراچی پولیس آفس کے اطراف میں متعدد حساس اداروں کے دفاتربھی واقع ہیں۔

ابتدائی تفتیش کے مطابق حفاظتی انتظامات میں غفلت سامنے آئی ۔  کے پی او پر حملے کے وقت اطراف میں قائم تین چوکیاں خالی تھیں ، پولیس لائن کوارٹرز کے داخلی و خارجی راستوں پر بھی حفاظتی انتظامات نہیں تھے۔

دہشت گردوں کا اصل ہدف کون تھا؟

ڈی آئی جی عرفان بلوچ نے بتایا کہ دہشتگردوں کا ٹارگٹ ایڈیشنل آئی جی کراچی تھے۔ انھیں ایڈیشنل آئی جی کراچی کا فلور بھی معلوم تھا ، انھوں نے ایڈیشنل آئی جی کے دفتر کو ٹارگٹ کیا۔

ڈی آئی جی کے مطابق دہشتگرد ایک ماہ تک ریکی کرتے رہے۔ انھوں نے ریکی مکمل کرنے کے بعد حملہ کیا۔ دہشتگرد ایڈیشنل آئی جی کراچی کے دفتر میں پہلے بھی آچُکے تھے۔ دہشتگرد صدر کی طرف سے ایک گاڑی میں سوار ہوکر آئے تھے۔

حملے کی ذمہ داری

تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان محمد خراسانی نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے ’’ گزشتہ شام تین افراد  نے  تمام سیکورٹی حصار توڑتے ہوئے صدر میں واقع پولیس کے محفوظ ترین مقام کراچی پولیس ہیڈکوارٹر پر حملہ کیا اور تین گھنٹے تک اس ہیڈکوارٹر پر اپنا قبضہ برقرار رکھا۔ ‘‘

رینجرز اور پولیس کے شہدا

کراچی پولیس آفس پر ہونے والے حملے میں شہید ہونے والے رینجرز اہلکار تیمور کا تعلق ملتان سے ہے جہاں انہیں سپرد خاک کردیا گیا جبکہ شہید ہونے والے دو پولیس اہلکاروں غلام عباس اور سعید کی نماز جنازہ میں آئی جی سندھ ، وزیر اعلی سندھ اور صوبائی وزرا نے شرکت کی۔

خاکروب امجد مسیح کی آخری رسومات میں بھی وزیر اعلیٰ سندھ نے شرکت کی ۔ امجد مسیح کے لئے ایک منٹ کے لئے خاموشی اختیار کی گئی اور جسد خاکی فیصل آباد روانہ کردیا گیا۔

اب پی ایس ایل کا کیا ہوگا؟

پاکستان کرکٹ بورڈ کے چئیرمین نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ سپر لیگ کے میچز شیڈول کے مطابق جاری رہیں گے۔ کراچی اور کوئٹہ کے مابین ہفتہ کو ہونے والا میچ شیڈول کے مطابق ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp