مسلم لیگ ن کے صدر اور سابق وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے اعلان کیا ہے کہ میاں محمد نواز شریف 21 اکتوبر کو پاکستان میں ہوں گے تاہم مسلم لیگ ن نے بھی واپسی کے لیے تیاریوں کا عمل شروع کر دیا ہے۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے سینئر صحافی مجیب الرحمٰن شامی کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی آمد کا مطلب ہے کہ ملک میں الیکشن ہونے جارہے ہیں، یہ الیکشن 2 یا 3 ہفتے آگے پیچھے ہو سکتے ہیں لیکن زیادہ لیٹ نہیں ہو سکتے۔
انہوں نے کہاکہ عام انتخابات سے قبل نواز شریف نے واپسی کا جو فیصلہ کیا ہے وہ درست ہے، نواز شریف اب ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ تو نہیں بنا سکیں گے لیکن اپنی گزشتہ ادوار کی پراگرس رپورٹ عوامی اجتماعات میں ضرور سامنے رکھیں گے۔
مجیب الرحمٰن شامی کے مطابق نواز شریف کے آنے سے یہ ہوگا کہ انکی پارٹی مضبوط ہوگی ورکر چارج ہوگا اور بھرپور انتخابی مہم چلائیں گے۔ نواز شریف اس وقت واپس آرہے ہیں جب انکے مخالف کسی کی حکومت نہیں ہے۔
مجیب الرحمن شامی صاحب کا مزید کہنا تھا کہ ان کے آنے سے پہلے انصاف کے ایوانوں میں بھی تبدیلی آچکی ہوگی اور مہنگائی عروج پر ہوگی، اس میں کچھ چیزیں انکو سپورٹ کریں گی اور کچھ انکے خلاف بھی جائیں گی۔
مزید پڑھیں
انکا کہنا تھاکہ نواز شریف خود میڈیا سے گفتگو میں یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر ہماری حکومت کا تسلسل جاری رہتا تو جی 20 ممالک کی کانفرنس میں پاکستان بھی شریک ہوتا جو بھارت میں ہوئی وہ پاکستان میں ہو سکتی تھی لیکن ایک سازش کے تحت انکی حکومت کو کام کرنے سے روکا گیا۔ اسطرح کی باتیں کرکے وہ لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کریں گے۔
دوسری جانب سینئر صحافی سلمان غنی کی نظر میں نواز شریف کی پاکستان آکر سب پہلی ترجیح یہ ہوگی کہ عدالت کے سامنے پیش ہوکر قانونی طور پر سرخرو ہوں۔ ان کی دوسری ترجیح یہ ہوگی کہ مایوس کارکن کو کیسے ایکٹیو کیا جائے کیونکہ نواز شریف اس صورتحال میں آرہے ہیں جب ان کے پارٹی ورکرز بالکل ایکٹیو نہیں ہیں۔
انہوں نے کہاکہ نواز شریف کی آمد ہی پارٹی میں جان ڈال سکتی ہے، کیونکہ نواز شریف کی واپسی سے ملکی سیاست پر اس کے اثرات ہوں گے، اور آئندہ آنے والے انتخابات میں بھی سنجیدہ پیش رفت ہو پائے گی۔
21 اکتوبر کو تمام قافلے لاہور ایئرپورٹ پہنچیں گے
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما میاں جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ نواز شریف لاہور ایئرپورٹ 21 اکتوبر کو اتریں گے اور انکے استقبال کے لیے تمام قافلے لاہور ایئرپورٹ پہنچیں گے، نواز شریف کی واپسی کے لیے جگہ جگہ اسقبالیہ کیمپس لگائے جائیں گے۔
انہوں نے کہاکہ استقبالیہ کیمپس پر رک کر نواز شریف مختصر خطاب کریں گے، اور اس بار انسانوں کا سمندر نواز شریف کا استقبال کرنے لاہور ایئرپورٹ آئے گا۔ 2018 میں بھی جب لندن سے لاہور ایئرپورٹ آئے تھے اس وقت لوگوں کو نواز شریف کے استقبال سے روکنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے گئے تھے لیکن عوام فیملیوں کی صورت میں باہر نکلے تھے تاہم اب تو کوئی روکاٹ بھی نہیں ہے۔
وی نیوز نے سوال کیا کہ اگر21 اکتوبر کو نواز شریف وطن واپس نہیں آتے تو پارٹی کا کیا بیانیہ ہوگا جس پر سینئر رہنما میاں جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ اس دفعہ نواز شریف کی واپسی کی تاریخ پارٹی صدر شہباز شریف نے دی ہے اور انکی واپسی کی تاریخ دینے کا مطلب ہے کہ شیر واپس آرہا ہے جسکا بھرپور طریقے سے استقبال کیا جائے گا۔
نواز شریف کے لیے بلٹ پروف خصوصی ٹرک تیار کیا جارہا ہے
مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما میاں جاوید لطیف نے وی نیوز کو بتایا کہ نواز شریف کی واپسی کے حوالے سے پچھلے 3 دن سے جاتی عمرہ میں ن لیگ پنجاب کے سینئر رہنماؤں کا اجلاس ہو رہا ہے جس میں نواز شریف کو ویلکم کرنے کے لیے مختلف تجاویز پرغورکیا جارہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھاکہ اجلاس کی صدرات مریم نواز کر رہی ہیں آج بھی ایک اجلاس جاتی عمرہ میں منعقد ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف کی واپسی پرنیشنل میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھر پور انتخابی مہم لانچ کی جائے گی۔
انہوں نے کہاکہ پنجاب کے مختلف حلقوں میں موجود رہنماؤں کو عوام کو لانے کا ٹاسک دیا جائے گا، پورے پنجاب میں نواز شریف کی واپسی کے بینرز اور فلیکس لگوائے جائیں گے۔ نواز شریف کو ایئرپورٹ سے لانے کے لیے خصوصی ٹرک تیار کیا جائے گا جو بلٹ پروف ہوگا۔
ان کا کہنا تھاکہ حمزہ شہباز اور مریم نواز پورے پنجاب میں کنونشنز اور ریلیاں نکالیں گے، سوئے ہوئے ورکرز کو ایکٹیو کیا جائے گا اور پھر اس طرح نواز شریف کا بھر پور استقبال کیا جائے گا۔