چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس محمد عامر نواز رانا پر مشتمل دو رکنی بینچ نے گزشتہ روز ایک آئینی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے ایک ایسے شخص کو ’غیر پاکستانی‘ قرار دیا ہے جس نے نہ صرف گزشتہ عام انتخابات میں حصہ لیا بلکہ وہ اس الیکشن میں کامیاب بھی ہوا۔
احمد علی کہوزاد ہزارہ گزشتہ عام انتخابات میں حلقہ پی بی 26 کوئٹہ 3 سے بلوچستان صوبائی اسمبلی کے امیدوار تھے، وہ اپنے حلقے سے 5117 ووٹ حاصل کر کے کامیاب امیدوار قرار پائے تھے۔
ان کی یہ کامیابی عارضی ثابت ہوئی اور ان پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ وہ پاکستانی شہری نہیں ہے۔ معاملہ منظر عام پر اس وقت آیا جب انتخابات کے نتیجے کے بعد ضلعی انتظامیہ کی جانب سے بلوچستان ہائیکورٹ میں ایک خط جمع کروایا گیا جس میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ احمد علی کہوزاد افغان مہاجر ہیں، بعد میں اس شبہ پر ان کا قومی شناختی کارڈ بھی بلاک کر دیا گیا تھا۔
اس معاملے کے پس منظر میں جائیں تو پتا چلتا ہے کہ نادرا نے 22 نومبر 2017ء کو ایک حکم نامے کے ذریعے احمد علی کہوزاد ہزارہ اوراس کی اہلیہ کے شناختی کارڈ منسوخ کردیے تھے جس کے خلاف درخواست گزار نے بلوچستان ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا۔
بلوچستان ہائیکورٹ نے 7 جون 2018ء کو ایک عبوری حکم کے ذریعے نادرا کی جانب سے درخواست گزار کے شناختی کارڈ کی منسوخی اگلی سماعت تک معطل کر دی۔
ان دنوں عام انتخابات کے حوالے سے سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ احمد علی کہوزاد ہزارہ نے حلقہ پی بی 26 کوئٹہ 3 سے صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروائے جو ریٹرننگ آفیسر نے شناختی کارڈ کی منسوخی کے باعث مسترد کر دیے جس کے خلاف احمد علی ہزارہ نے الیکشن اپیلٹ ٹربیونل میں درخواست دائر کی۔
احمد علی کہوزاد ہزارہ کی درخواست پرانہیں الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے 25 جولائی 2018ء کو ووٹوں کی گنتی کے بعد انہیں حلقہ پی بی 26 کوئٹہ 3 سے ریٹرنڈ امیدوار قرار دے دیا گیا.
بعد ازاں الیکشن کمیشن کی جانب سے ایک مختصر حکم نامہ مورخہ 15 نومبر 2018ء کو جاری کیا گیا جس میں انہیں نان نیشنل ہونے کی بنا پر مذکورہ حلقے سے نااہل قرار دیا گیا اور مذکورہ حلقے میں دوبارہ الیکشن کروانے کا کہا گیا۔
دوسری جانب بلوچستان ہائیکورٹ نے احمد علی کہوزاد ہزارہ کی درخواست خارج کر دی اور عبوری حکم نامہ بھی واپس لے لیا۔
درخواست گزار نے نادرا کے 22 نومبر 2017ء اور سیکرٹری داخلہ کے حکم کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی رٹ دائر کی جسے 29 اکتوبر 2018ء کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے سنگل بینچ نے خارج کر دیا، جس پر درخواست گزار نے بلوچستان ہائیکورٹ میں فوری آئینی درخواست دائر کی اور عدالت سے ریلیف کی استدعا کی تھی۔
بلوچستان ہائیکورٹ نے اس آئینی درخواست پرگزشتہ روزاپنا فیصلہ جاری کیا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ احمد علی ہزارہ کی درخواست کے ضمن میں انہیں نادرا کے تمام فورمز پر بھرپوراور شفاف مواقع فراہم کیے گئے لیکن ان سب کے باوجود درخواست گزار 1979ء سے قبل کا کوئی ایک بھی ایسا دستاویزی ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہے جس سے ثابت ہوتا کہ وہ ایک پاکستانی شہری ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ وکلا کے دلائل اورریکارڈ کے جائزے سے ثابت ہوتا ہے کہ درخواست گزار نے نادرا سے قومی شناختی کارڈ غیر قانونی طریقے سے حاصل کیا اور حیدر علی (مرحوم) کے فرزند اور عبدالحمید کے بھائی کی حیثیت سے اپنا نام ان کے شجرے میں شامل کیا۔
عدالت نے مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں احمد علی ہزارہ کی آئینی درخواست خارج کر دی ہے اور اس ضمن تمام متعلقہ اداروں کی جانب سے انہیں غیر پاکستانی قرار دیے جانے کے عمل کوشکوک و شبہات سے مبرا اور درست قرار دیا ہے۔