عدالت ملزمان کے خلاف فائل دیکھتی رہ جاتی ہے، شواہد نہیں ملتے، جسٹس امجد علی سہتو

بدھ 13 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جسٹس امجد علی سہتو کہتے ہیں کہ زیادتی کے کیسز میں تفتیش ہوتی ہے، نہ شناخت پریڈ، عدالت ملزمان کے خلاف فائل دیکھتی رہ جاتی ہے اور شواہد ہی نہیں ملتے، 15 سال جو تباہی سندھ میں ہوئی ہے کہیں نہیں ہوئی ہے۔

 سندھ ہائی کورٹ میں زیادتی کیس کے ملزم ناظم کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی، عدالتی حکم پر آئی جی سندھ رفعت مختار پیش ہوئے، مکالمے کے دوران جج امجد علی سہتو آئی جی سندھ رفعت مختار ہر برہم ہوگئے۔

سماعت کے دوران جسٹس امجد علی سہتو نے کہا کہ آئی جی صاحب 15 سال جو تباہی سندھ میں ہوئی ہے کہیں نہیں ہوئی، معلوم نہیں 6 مہینے بعد آپ کہاں ہوں گے مگر جاتے جاتے سندھ کے عوام پر احسان کر جائیں۔ تفتیشی افسر کو تفتیش کے لیے ایک ہاتھ سے چیک دیا جاتا ہے، دوسرے ہاتھ سے لے لیا جاتا ہے، تفتیشی افسران کہتے ہیں ہمیں فنڈز ہی نہیں ملتے تفتیش کے لیے پیسہ جیب سے کیوں لگائیں۔

جسٹس امجد علی سہتو نے آئی جی سندھ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ تفتیش کے لیے فنڈز ہر ضلع کو دینے کے بجائے براہ راست تھانے کو کیوں نہیں دیے جاتے؟ تھانے کو تفتیش کے لیے پیسہ دیں گے تو ان سے جواب طلبی بھی ہو گی، سندھ کے لوگوں کی آپ پر نظر ہے۔

مکالمے کے دوران آئی جی سندھ رفعت مختار نے عدالت کو بتایا کہ دو چار مہینے بعد سندھ میں چیزیں تبدیل ہوتی نظر آئیں گی، پولیس میں مانیٹرنگ کا میکنزم بنا دیا ہے، فنڈز کی مانیٹرنگ بھی میں خود کروں گا۔

 جسٹس امجد ستہو نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں تفتیشی افسر سے پوچھا ملزم کو کیوں گرفتار کیا؟ تفتیشی افسر نے کہا اس کا بڑا بھائی ڈاکے مارتا تھا اس لیے اس کو بھی گرفتار کیا، ہر محکمے میں 5 ہزار میں سے 2 ہزار ڈیوٹی پر ہوتے ہیں باقی بیرون ملک ہیں۔

انہوں نے کہاکہ کوئی ویزا لے کر لندن چلا جاتا ہے کوئی پیرس چلا جاتا ہے، کراچی میں تو پھر بھی تفتیشی افسران کچھ نہ کچھ کر لیتے ہیں، کراچی میں چھالیہ والا بھی پولیس کو دو کروڑ دے دیتا ہے، شکار پور، کندھ کوٹ، کشمور میں تو چھالیہ والا نہیں۔

انہوں نے آئی جی سندھ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ عدالت ملزمان کے خلاف فائل ٹٹولتی رہ جاتی ہیں، کہیں شواہد ہی نہیں ملتے، ہم ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک جاتے ہیں ملزمان کے خلاف عدالت میں شواہد پیش نہیں کیے جاتے۔

ان کا کہنا تھاکہ جب ملزم چھوٹ جاتے ہیں تو دوسرے دن بیان آتا ہے کہ ہم ملزم پکڑتے ہیں عدالت چھوڑ دیتی ہے، کیا کریں جب شواہد ہی نہیں آتے تو ملزمان کو کیسے جیل میں رکھیں۔

آئی جی سندھ رفعت مختار نے کہا کہ مجھے سندھ میں 20 دن ہوئے ہیں بہت ساری چیزیں سمجھ آئی ہیں، کچھ دنوں تک آپ کو صوبے میں تبدیلی نظر آجائے گی۔

جسٹس امجد سہتو نے کہا کہ بس آپ یہاں سے شروعات کریں اور تفتیش کے نظام کو بہتر کریں، جس پر آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ تفتیشی افسران کے لیے اسپیشل الاؤنس مقرر کر دیا گیا ہے، اب ایسا نہیں ہو گا کہ ایک ہاتھ سے چیک دے کر دوسرے ہاتھ سے لے لیا جائے۔

جج امجد سہتو نے کہا کہ تفتیشی افسران کی ٹریکنگ کا آپ کے پاس کوئی نظام نہیں تو عدالت آپ کی مدد کر سکتی ہے، تفتیش کے فنڈز اگر براہ راست تھانے کو دے دیں گے تو سندھ کی قسمت بدل جائے گی، ملزمان کی شناخت پریڈ کو یقینی بنایا جائے تو کچھ نا کچھ تو بہتر ہو سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp