اسلام آباد میں اسکول و کالج کے طلبا کا کلاسز ’بنک‘ کرنا یعنی وہاں سے چمپت ہوکر یا سٹک کر گلیوں بازاروں میں گھومتے پھرنا اب اتنا آسان نہیں رہا کیوں کہ پولیس نے انہیں ایسا کرنے سے روکنے کے لیے جدید کیمروں کی مدد سے ان کی نگرانی کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ایسے طلبا کو تلاش کرکے انہیں اسمارٹ کاروں میں سوار کراکے واپس اسکول بھی پہنچادیا جائے گا جبکہ والدین سے شکایت بھی خارج از امکان نہیں۔
اسلام آباد پولیس کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے 12 ستمبر کو ایک ٹوئٹ کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ سیف سٹی پراجیکٹ کے تحت اسلام آباد میں’ اسکول چلو مہم‘ کا آغاز کیا جا چکا ہے تاکہ غیر حاضر طلبا کی اسکول میں حاضری یقینی بنائی جائے اور انہیں جرائم پیشہ سرگرمیوں سے بھی محفوظ رکھا جا سکے۔
غیر حاضر طلبا کو پکڑا کیسے جائے گا؟
اس حوالے سے ترجمان اسلام آباد پولیس تقی جواد نے بتایا کہ اسلام آباد سیف سٹی پراجیکٹ کے تحت اسلام آباد میں موجود تفریحی مقامات، مارکیٹس اور دیگر اہم مضافات پر نصب کیمروں کی مدد سے اسکول اور کالج کی کلاس ’بنک‘ کرکے باہر گھومنے پھرنے والے طلبا کو مانیٹر کرکے انہیں اسکول اور والدین کے حوالے کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس سارے عمل میں پہلے سے موجود ڈولفن اسکواڈ کام کرے گا۔ یہ ڈولفن اسکواڈ کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اسکول اور کالج کے اوقات کے دوران اسلام آباد کی حدود میں بلاوجہ گھومنے، پھرنے والے طلبا کو پکڑیں اور پھر انہیں اسمارٹ کاروں کی مدد سے اسکول پہنچادیں۔
ایک سوال کے جواب میں ترجمان کا کہنا تھا کہ چونکہ اسکول اور کالج کے بچے یونیفارم میں ہوتے ہیں تو ان کی شناخت بآسانی کی جا سکتی ہے جبکہ یونیورسٹیوں کے طلبا کی تو نشاندہی نہیں کی جا سکتی کیونکہ ان کا کوئی مخصوص یونیفارم نہیں ہوتا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دوسری بات یہ کہ جامعات کے طلبا سمجھ دار ہوتے ہیں اور اچھے برے کی تمیز رکھتے ہیں۔
مذکورہ مہم کے بارے میں ترجمان کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد صرف یہی ہے کہ بچے اسکول سے بھاگ کر منشیات یا کسی قسم کی جرائم پیشہ سرگرمی کا حصہ نہ بنیں اور اپنی تعلیم پر دھیان دیں۔
اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے والدین کا کہنا ہے کہ یہ ایک بہت اچھا قدم ہے جسے ضرور سراہا جانا چاہیے کیونکہ بچوں کا اسکول سے غیر حاضر ہو کر باہر گھومنا انہیں مختلف جرائم کی جانب راغب کرتا ہے۔ خاص طور پر اسکول اور کالجز کے بچے ایسی عمر میں ہوتے ہیں جن کے لیے اچھے اور برے کی پہچان کرنا مشکل ہوتا ہے۔
محمد عمران ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازم ہیں اور 4 بچوں کے باپ ہیں۔ انہوں نے وی نیوز کو بتایا کہ پولیس کی جانب سے اس مہم کا آغاز بہت اچھا فیصلہ ہے کیونکہ والدین بچوں کے ساتھ اسکول نہیں جا سکتے۔ انہیں تو یہی لگتا ہے کہ بچہ اسکول میں ہے۔ اس مہم سے یہ فائدہ ہوگا کہ نہ بچہ اسکول سے غیر حاضر ہوگا اور نہ ہی آزادانہ گھوم پھر سکے گا۔ اسکول سے غائب رہنے والے بچوں کے دل اور دماغ سے والدین کا ڈر بھی وقت کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے اور وہ بہت سی غیر قانونی سرگرمیوں کا حصہ بھی بن جاتے ہیں۔
’بچوں کو ہر وقت مانیٹر کرنا ممکن نہیں تھا، اب اچھا ہوگیا‘
کرن فاطمہ 3 بچوں کی والدہ اور ایک نوکری پیشہ خاتون ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے شوہر ملک سے باہر ہیں اور وہ خود بھی نوکری پیشہ خاتون ہیں۔
کرن فاطمہ کا کہنا تھا کہ اپنے طور پر وہ اپنے بچوں کی ہر سرگرمی کو مانیٹر کر رہی ہوتی ہیں لیکن 24 گھنٹے بچے کو مانیٹر نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے یہ ایک قابل تعریف قدم ہے اور اس سے بہت سے بچوں کی زندگیاں خراب ہونے سے بچ سکتی ہیں کیونکہ یوں باہر گھومنے والے طلبا میں زیادہ تر بہت سی غلط سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں اور صحیح اور برے کی تمیز بھول جاتے ہیں۔