جسٹس قاضی فائز عیسٰی 17 ستمبر بروز اتوار ایوانِ صدر میں صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے سپریم کورٹ کے 29ویں چیف جسٹس کے طور پر حلف لیں گے۔ بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ 2012 میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے جب میمو گیٹ اسکینڈل کا فیصلہ لکھا تو اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ان سے ناراض ہو گئی، جب کوئٹہ بم دھماکے کی رپورٹ لکھی تو مسلم لیگ نواز اور جب فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ دیا تو پی ٹی آئی حکومت ان سے ناراض ہوئی۔
نظام انصاف رینکنگ میں بہتری
پاکستانی نظام انصاف اس وقت دنیا بھر کے نظام ہائے انصاف میں 129 ویں نمبر پر آتا ہے اور گزشتہ کچھ عرصے میں پاکستان میں انصاف کی عدم فراہمی کی وجہ سے پاکستان کا بیرونی دنیا میں تاثر اور خراب ہوا ہے، اب یہ دیکھنا ہے کہ جسٹس قاضی فائزعیسٰی کیا اس نظام انصاف میں کوئی بہتری لا پائیں گے یا نہیں۔
آئین اور قانونی کی حکمرانی
جسٹس قاضی فائز عیسٰی ایک ایسے جج کے طور پر جانے جاتے ہیں جو آئین اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں، اسی لیے ملک میں آئین و قانون پر یقین رکھنے والے طبقات جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی تقرری سے خاصے پرامید نظر آتے ہیں۔
چیف جسٹس کے عہدے تک پہنچنے کے لیے وہ کافی مشکلات سے گزرے ہیں، خاص طور پر 2019 میں جب ان کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کو برطرف کر دیا جائے گا کیونکہ ان سے ایک سال پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو بھی ان سے ملتے جلتے حالات کی وجہ سے ہی برطرف کیا گیا تھا۔ شوکت عزیز صدیقی نے بعد ازاں اپنی برطرفی کے خلاف درخواستیں دائر کیں جو تاحال زیرالتوا ہیں، اور یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی ان درخواستوں پر کیا فیصلہ کرتے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی مختلف مقدمات کی سماعت اور تقریروں میں آئین اور قانون کی حکمرانی کی بات کرتے نظر آتے ہیں، لیکن اس حکمرانی کو صحیح معنوں میں نافذ کرنا بھی یقیناً ان کے لیے ایک چیلینج ہوگا۔
عدلیہ میں تقسیم کو ختم کرنا
جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو چیف جسٹس کا منصب سنبھالنے کے بعد سب سے بڑا چیلنج جو درپیش ہو گا وہ اعلیٰ عدلیہ میں تقسیم کو ختم کرنا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں ہمیں عدلیہ کے اندر ایک واضح تقسیم نظر آئی۔ ایک دوسرے کے خلاف نوٹس اور لیٹر جاری کیے گئے، تو سب سے بڑا چیلینج تو یہی نظر آتا ہے کہ کس طرح وہ عدلیہ کو متحد کر کے اس کی ساکھ کو بحال کر سکتے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی پارلیمنٹ کے منظور کردہ قوانین کے بارے میں نظر ثانی اپیلوں پر سماعت کریں گے۔
حال ہی میں پی ڈی ایم کے دور حکومت میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی جب پارلیمنٹ اجلاس میں گئے تو اس پر بہت زیادہ تنقید کی گئی لیکن پارلیمنٹ سے اپنے خطاب میں انہوں نے کہاکہ وہ آئین کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کا پارلیمنٹ اجلاس میں شرکت کرنا بذات خود اس بات کا واضح اشارہ تھا کہ وہ آئین اور قانون کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہیں۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کے منظور کردہ نیب قانون کو کالعدم کیا، اس سے پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر حکم امتناع اور ریویو آف ججمنٹ ایکٹ کو کالعدم قرار دیا، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ بھی لکھا۔ اب یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ چیف جسٹس بننے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسٰی پارلیمنٹ کے منظور کردہ قوانین کے بارے میں کیا فیصلے دیتے ہیں کیونکہ مذکورہ قوانین کے بارے میں نظر ثانی اپیلیں ان کے سامنے دائر ہوں گی۔
ججز تعیناتیاں اور ججز کے خلاف زیر التوا ریفرنسز پر فیصلے
سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتیوں کو لے کر گزشتہ عرصے میں کافی اعتراضات سامنے آئے اور کہا گیا کہ میرٹ اور سنیارٹی کے اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر ججز کی تعیناتیاں کی گئیں۔ اس کے علاوہ سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس ججز کے خلاف ریفرنسز بھی زیر التوا ہیں۔ یہ دونوں معاملات بھی نئے چیف جسٹس کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔
عدلیہ کو آئین کے مطابق فیصلے کرنے ہوتے ہیں،ہارون الرشید
پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ہارون الرشید نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ عدلیہ کے لیے کوئی چیلنج نہیں ہوتا انہیں بس آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنا ہوتے ہیں۔ اس وقت کرنے کا کام یہ ہے کہ آنے والے چیف جسٹس عدلیہ کو آزاد کرائیں، اور عوام جو اس وقت شدید ترین مشکلات کا شکار ہیں ان کو سستا اور فوری انصاف ملے۔
عدلیہ کے اندر تقسیم کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہارون الرشید نے کہاکہ یہ تقسیم ختم ہو جائے گی لیکن اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ سارے ادارے اپنی درست پوزیشنز پر نہیں۔ یہ ادارے جب اپنی درست پوزیشنز پر آئیں گے تو ملک ترقی کرے گا، ملک اس وقت شدید ترین معاشی مسائل سے گزر رہا ہے اور اس کو حل کرنے کے لیے ضرورت ہے کہ تمام ادارے مل کر کام کریں۔
عدلیہ سے تقسیم کو ختم کرنا فائز عیسیٰ کے لیے بڑا چیلنج ہو گا، عبدالقیوم صدیقی
طویل عرصے سے سپریم کورٹ کی رپورٹنگ کرنے والے سینیئر صحافی عبدالقیوم صدیقی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جو اصول چھوڑا ہے، ’وہ ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘۔
عبدالقیوم صدیقی کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے لیے سب سے بڑا چیلنج عدلیہ کے امیج اور رٹ کی بحالی ہے، دوسرا بڑا چیلنج یہ ہے کہ عدلیہ سے تقسیم کو ختم کرنا ہے، جسٹس قاضی فائز عیسٰی اس تقسیم کو کیسے ختم کرتے ہیں یہ ایک بڑا امتحان ہے۔
ایک سوال کہ آیا ماتحت عدالتوں میں بروقت انصاف کی فراہمی میں چیف جسٹس کا کوئی کردار ہوتا ہے، کے جواب میں عبدالقیوم صدیقی نے کہاکہ اس میں چیف جسٹس کا بالواسطہ کردار ہوتا ہے۔ ضلعی عدالتیں چونکہ ہائی کورٹس کے ماتحت کام کرتی ہیں اور وہاں نظام انصاف کی درستگی بنیادی طور پر متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کی ہوتی ہے لیکن سپریم کورٹ نیشنل جوڈیشل پالسی کے ذریعے سے ماتحت عدلیہ کو انصاف کی بروقت فراہمی کے لیے کہہ سکتی ہے جس طرح 2009 میں جوڈیشل پالیسی آئی تھی جس میں مختلف اقسام کے مقدمات کے فیصلوں کے لیے ٹائم لائن مقرر کی گئی تھی۔
انہوں نے کہاکہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی آئین، جمہوریت اور پارلیمانی نظام پر یقین رکھتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کی تمام ادارے آئین میں دیے گئے اختیارات کے تحت کام کریں۔