سائنسدانوں نے فضائی آلودگی کے خاتمے کے لیے کاربن کیپچر ٹیکنالوجی متعارف کرا دی

ہفتہ 16 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

امریکا میں گرین گیسز کا 50 فیصد سے زائد اخراج گاڑیوں اور بجلی کی پیداوار سے جڑی صنعت کے ذریعے ہوتا ہے لیکن اب الیکٹرک گاڑیوں اور شمسی توانائی کے استعمال سے ان گیسز کے اخراج میں کمی واقع ہو رہی ہے۔

دوسری جانب اسٹیل، سیمنٹ اور کیمیکلز کی صنعتوں سے ہونے والا گرین گیسز کا اخراج 23 فیصد ہے جسے کم کرنا یا ختم کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ بروکنگز انسٹیٹیوٹ کے محقیقین کے مطابق ان صنعتوں میں گیسز کو ڈی کاربنائز(کاربن سے پاک) کرنا نہایت پیچیدہ اور مہنگا عمل تصور کیا جاتا ہے۔

دنیا کے لیے اس وقت یقیناً سب سے زیادہ ضروری صنعتی شعبہ میں ایندھن کے استعمال کا متبادل تلاش کرنا ہے، جس کے بعد بہترین چیز یہی ہوسکتی ہے کہ خطرناک گیسز کو فضا تک پہنچنے سے کیسے روکا جائے۔

ایندھن کے متبادل ذرائع کی تلاش تو کئی دہائیوں سے جاری ہے اوراس میں انسان کو کئی کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں مگر صنعتی سطح پر ان کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔ البتہ سائنسدانوں نے گرین گیسز کو فضا میں جانے سے روکنے کے لیے ایک جدید سائنسی عمل دریافت کیا ہے جسے ’کاربن کیپچرٹیکنالوجی‘ کہا جاتا ہے۔

کاربن کیپچر ٹیکنالوجی سے پہلے ہم سب کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ گرین گیس کیا ہے اور یہ کیسے گلوبل وارمنگ کا باعث بن رہی ہے۔

گرین گیس کیا ہے؟

گرین گیسز یا گرین ہاؤس گیسز زمین کے ماحول میں موجود وہ گیسز ہیں جو حرارت کو جذب کرتی ہیں۔ دن کے وقت سورج کی روشنی سے زمین کی سطح گرم ہو جاتی ہے اور رات کے وقت جب یہ ٹھنڈی ہونا شروع کرتی ہے تو حرارت واپس فضا میں منتقل کرتی ہے اور زمین کا درجہ حرارت اوسطاً 14 ڈگری سینٹی گریڈ تک برقرار رکھتی ہے۔

گرین ہاؤس کے بغیر زمین کا درجہ حرارت منفی 18 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ سکتا ہے۔ لیکن زمین پرکئی صدیوں سے جاری انسانی سرگرمیوں کے باعث گرین گیسز کا اخراج بہت زیادہ بڑھ چکا ہے اور گلوبل وارمنگ کا باعث بن رہا ہے۔ ان گیسز میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین، نائٹرس آکسائیڈ اور پانی کے بخارات شامل ہیں۔

کاربن کیپچر ٹیکنالوجی

سائنسدانوں نے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو روکنے کے لیے ایک نہایت موثر طریقہ کار دریافت کیا تھا جسے کاربن کیپچر ٹیکنالوجی (کاربن جذب کرنے کی تکنیک) کہا جاتا ہے۔

اس طریقہ کار کے تحت کاربن ڈائی آکسائیڈ کو دیگر گیسز کے ہمراہ چمنیوں سے نکلنے سے پہلے ہی جذب کرنا اور پھر کاربن کو مصنوعات جیسا کہ جیٹ فیول وغیرہ بنانے کے لیے زیر زمین ذخیرہ کرنا ہے۔

کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے کا طریقہ

کاربن کیپچر ٹیکنالوجی ایک طریقہ کار ہے جس کے استعمال سے چمنیوں سے نکلنے والے دھویں سے 90 فیصد سے زائد کاربن کو جذب کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ان گیسز کو ایک پریشر کے ذریعے خصوصی چیمپبر میں منتقل کیا جاتا ہے جہاں امونیا سے بنا ایک امائن محلول ان گیسز میں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کوجذب کرلیتا ہے جبکہ باقی ماندہ گیس فضا میں تحلیل ہو جاتی ہے۔

اس کے بعد امائن محلول اور کاربن ڈائی آکسائیڈ میں پیدا ہونے والے بانڈ کو توڑنے کے لیے اس مرکب کو 120 ڈگری سینٹی گریڈ پر گرم کیا جاتا ہے جس سے خالص کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ذخیرہ کر لیا جاتا ہے جبکہ محلول کو دوبارہ استعمال کیا جاتا ہے۔

اس طریقہ کار کو ’ری جنریشن‘ کہا جاتا ہے۔ بد قسمتی سے یہ نہایت مہنگا عمل ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں صرف 40 صنعتوں میں اس کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

کاربن کو جذب کرنے کا سستا اور ماحول دوست طریقہ کار

میساچیوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے محقیقین نے ایک دہائی قبل یہ ثابت کیا تھا کہ ’ری جنریشن‘ کے لیے حرارت ہی واحد حل نہیں ہے بلکہ بیٹریوں میں بجلی پیدا کرنے کے عمل کی طرح الیکٹروکیمیکل ری ایکشنز کو امائن محلول سے کاربن کو الگ کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ایسوسی ایٹ پروفیسر بیٹر گیلنٹ کی سربراہی میں ایم آئی ٹی کی ایک ٹیم نے ایک الیکٹرو کیمیکل تکنیک تیار کی جو جذب ہونے والی کاربن کو الگ کر سکتی ہے اور اسے کسی کارآمد چیز میں تبدیل کر سکتی ہے۔

اس کام کے لیے انہوں نے امائن محلول میں ایک الیکٹروڈ ڈالا اور جب اس الیکٹروڈ کے ذریعے محلول میں کرنٹ گزارا گیا تو کاربن ڈائی آکسائیڈ محلول سے الگ ہو کر کاربن مونو آکسائیڈ میں بدل گئی، جو کہ مختلف اقسام کے فیول اور پلاسٹک وغیرہ بنانے کے کام آتی ہے۔

یہ طریقہ کار آسان، کم خرچ اور صاف ستھرا ہے کیونکہ اس میں حرارت پیدا کیے بغیر کاربن ڈائی آکسائیڈ کو الگ کر لیا جاتا ہے۔ البتہ سائنسدان ابھی اس طریقہ کار (کیمیکل ری ایکشنز) کی تفصیلات جاننے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور اسے اختیار کرنے کے بارے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے۔

مستقبل کیسا ہوگا؟

محقیقین کا کہنا ہے کہ وہ کاربن کیپچر ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ان کا مقصد صنعتی شعبے کو کاربن سے پاک کرنا ہے اور اس کے اخراج کے بجائے اسے دیگر مصنوعات میں استعمال کے لیے محفوظ کرنا ہے۔

ایسوسی ایٹ پروفیسر بیٹر گیلنٹ کا کہنا ہے کہ ان کا خواب ہے کہ الیکٹروکیمیکل طریقہ کار کا صنعتی طور پر استعمال اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو مستقل طور پر محفوظ کیا جائے۔ گیلنٹ کا کہنا تھا کہ ابھی اس میں وقت لگے گا مگر یہ کم از کم اس طریقہ کار کو قابل عمل بنانے کی جانب پہلا قدم ہے۔

اگر سائنسدان الیکٹروکیمیکل ری ایکشنز کی بنیاد پر کاربن کیپچر ٹیکنالوجی کو قابل استعمال بنانے میں کامیاب ہو گئے تو یہ اس زمین اور اس پر بسنے والے انسانوں کے لیے گویا ایک نیا جنم ہو گا اور وہ آلودگی، گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث آنے والی آفات کے خطرے سے محفوظ ایک نئے مستقبل کی بنیاد رکھ سکیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp