جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پاکستان کے 29ویں چیف جسٹس آف پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا ہے، وہ 45 سال سے شعبہ قانون سے وابستہ ہیں، قانون کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد انہوں نے تقریباً 27 سال تک بطور وکیل اپنے فرائض سر انجام دیے، 30 جنوری 1985 کو بلوچستان ہائی کورٹ اور پھر 21 مارچ 1998 کو سپریم کورٹ میں بحیثیت وکیل فرائض کی انجام دہی کے لیے لائسنس حاصل کیا۔
5 اگست 2009 کو بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے پر تعینات ہوئے جبکہ 5 ستمبر 2014 کو سپریم کورٹ کے جج کے عہدے پر فائز ہو گئے۔
نوتعینات چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بحیثیت جج سپریم کورٹ اپنے دور میں بہت سے اہم اور دلیرانہ فیصلے کیے، وی نیوز نے ان میں سے چند فیصلوں پر روشنی ڈالی ہے۔
فیض آباد دھرنا کیس میں اہم ریمارکس
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا سخت آئینی انداز 2019 کے فیض آباد دھرنا کیس میں جھلکتا ہے، انہوں نے ریمارکس دیے کہ احتجاج کرنے کا حق صرف اس حد تک محدود ہے کہ یہ دوسروں کے بنیادی حقوق میں مداخلت نہ کرتا ہو، لوگوں کی آزادانہ نقل و حرکت، جائیداد رکھنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کا حق کوئی نہیں لے سکتا، اس طرح وہ مظاہرین جو لوگوں کی نقل و حمل میں رکاوٹ ڈالتے ہیں اور نقصان پہنچاتے ہیں، یا جائیداد کو تباہ کرتے ہیں، قانون کے مطابق ایسے مظاہرین کے خلاف کارروائی کی جائے اور انہیں جوابدہ ٹھہرایا جائے۔
فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کا کیس
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے ایک کیس میں سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ پاکستان انتہائی مقروض ہے اور حکومت مزید قرض لے رہی ہے، اس طرح آنے والی نسلیں غریب پیدا ہوں گی اور مرتے دم تک غریب ہی رہیں گی، زیادہ تر پاکستانی اپنے سروں پر محفوظ چھت کے لیے ساری زندگی جدوجہد کرتے ہیں، جبکہ مسلح افواج کے ججز اور افسران جن کو قیمتی شہری مقامات پر زمین ملتی ہے وہ ہمیشہ اس پر اپنے رہنے کے لیے مکان نہیں بناتے اور جن افسروں کو زرعی زمینیں ملتی ہیں وہ اس پر کاشت کاری نہیں کرتے۔ وہ اپنے پلاٹ اور زرعی زمین بیچ دیتے ہیں یا غیر حاضر زمیندار بن جاتے ہیں۔
عدالتی بینچ کی تشکیل پر اعتراض
وزیراعظم کی جانب سے ارکان قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی کو فنڈز کی تقسیم سے متعلق کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالتی بینچ کی تشکیل کے طریقے پر اعتراض کیا اور ریمارکس دیے کہ وفاداری ہمیشہ آئین کے ساتھ ہوتی ہے، اگر کسی ادارے کا سربراہ انحراف کرتا ہے تو اسے یاد دلایا جائے۔ جب اہم آئینی معاملات کی سماعت کی جائے تو سینیئر ججوں کو بینچوں سے باہر کرنا نہ تو ادارے کی خدمت کرتا ہے اور نہ ہی عوام کی۔
جسٹس فائز عیسیٰ کا میرٹ پر اپنے ہی ساتھیوں سے اختلاف رائے
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے میرٹ پر بھی اپنے ساتھیوں سے اختلاف کیا اور ریمارکس دیے کہ سینیٹ کے انتخابات ہونے والے ہیں، سیاسی تقسیم کے دونوں فریق عوامی سطح پر ایک دوسرے پر ووٹ خریدنے کے سنگین الزامات لگاتے رہے ہیں۔ یہ بھی الزام لگایا گیا تھا کہ سینیٹ کے معزز چیئرمین کا انتخاب سنگین طور پر داغدار تھا۔ ان حالات میں سپریم کورٹ اس طرح کی مبینہ آئینی خلاف ورزیوں کو نظر انداز نہیں کر سکتی اور عوام کے حقوق کو سلب کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔
جسٹس فائز عیسیٰ کی اہم انکوائری کمیشنز کی سربراہی
فائز عیسیٰ نے دو مرتبہ 3 رکنی جوڈیشل انکوائری کمیشن میمو انکوائری کمیشن اور جسٹس خواجہ شریف پر قاتلانہ حملہ کے انکوائری کمیشن کی سربراہی بھی کی ہے، دونوں معاملات میں ایک سیاسی جماعت کی جانب سے سویلین قیادت پر لگائے گئے سنگین الزامات جھوٹے پائے گئے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے 8 اگست 2016 کو کوئٹہ میں ہونے والے 2 دہشت گردانہ حملوں کے حوالے سے انکوائری کمیشن کی بھی سربراہی کی جس میں 75 افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں اکثریت وکلا کی تھی۔ جسٹس عیسیٰ مجرموں کا پتہ لگانے میں کامیاب ہوئے، اور سفارش کی کہ کس طرح دہشت گردی اور غلط نظریات کے پرچار کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کیا جائے۔
فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے کیس میں اختلافی تحریر
آئین کی 21ویں ترمیم کے ذریعے جب فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کا قانون بنایا گیا تو اسے چیلنج کیا گیا تھا جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک طاقتور اختلاف تحریر کرتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کیا کہ اس طرح کے ٹرائل آئین کے مطابق نہیں ہیں۔
کرپشن کے کیس میں قومی احتساب بیورو کی سرزنش
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 70 کروڑ کی کرپشن پر رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے ایک سرکاری ملازم کے ساتھ پلی بارگین کرنے پر قومی احتساب بیورو (نیب) کی سرزنش کی تھی اور ریمارکس دیے تھے کہ چیئرمین کی جانب سے پلی بارگین کی منظوری بدعنوانی کے خاتمے اور ان تمام افراد کو جوابدہ کرنے کے لیے بیان کردہ مقصد [نیب آرڈیننس] کے خلاف ہے۔
خواتین کو وراثتی حقوق دینے سے متعلق کیس میں اہم ریمارکس
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے دور میں اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ خواتین کو ان کے وراثتی حقوق سے محروم نہ کیا جائے، وراثتی کیسز میں ریمارکس دیے کہ مردوں کا خواتین کو وراثت میں حق نہ دینا فراڈ ہے، مرد وارثوں کا خواتین وارثوں کو حق نہ دینا خواتین کی ولدیت سے انکار کرنے کے جیسا ہے۔
غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کی شدید مذمت
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے فیصلوں میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کی شدید مذمت کی اور ریمارکس دیے کہ اس بات کو دوبارہ سے بتانے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی قتل کبھی بھی قابل احترام نہیں ہوتا، قتل کی اس طرح درجہ بندی نہیں ہونی چاہیے، انتہا پسندی اور تشدد پاکستانی معاشرے میں پھیل چکا ہے، خواتین کے خلاف جرائم کو روکنے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے، معاشرے میں تبدیلی کے لیے عزت اہم کردار ادا کرتی ہے، ہمیں معاشرے کو تبدیل کرنا ہو گا۔
دہشتگرد حملے کے بعد لڑکیوں کا اسکول بند کرنے پر اظہار برہمی
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے دور میں دہشت گرد حملے کے بعد لڑکیوں کے اسکول کو بند کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ یہ اسلام کی توہین ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ذریعے انسانیت کو پہلا حکم ’اقرا‘ تھا، مطلب کہ پڑھیں، یہ پہلا حکم قلم اور تعلیم یا سیکھنے کا ذکر کرتا ہے۔ اللہ پاک اپنی بے شمار نعمتوں میں سے کسی اور چیز کو بھی قرآن پاک کی پہلی وحی میں بتا سکتا تھا، لیکن اللہ نے اپنی لامحدود حکمت اور رحمت میں پڑھنے، لکھنے اور تعلیم کو بنیادی اہمیت سمجھا۔ اس لیے لڑکیوں کے اسکول کا بند ہونا اسلام کی توہین ہے۔
مذہبی قوانین کو احتیاط کے ساتھ لاگو کیا جانا چاہیے
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مذہبی بنیادوں پر بنے ہوئے مقدمات پر ریمارکس دیے کہ مذہبی قوانین کو احتیاط کے ساتھ لاگو کیا جانا چاہیے، اس دوران اسلامی فقہی اصولوں کی پاسداری کرنی چاہیے، اور کمال ہوشیاری سے کام لینا چاہیے کہ کہیں کسی بے گناہ کو مذہب سے متعلق جرائم کے سلسلے میں غلط سزا نہ دے دی جائے۔
جسٹس فائز عیسیٰ کا ایک فیصلے دوران قرآنی آیات کا حوالہ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ایک فیصلے میں قرآن پاک کا حوالہ دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات میں سے ہم اکیلے کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ ہم توازن برقرار رکھیں اور فطرت کی ترتیب کو درہم برہم نہ کریں۔ فضول خرچی نہ کرو، بیشک اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (سورۃ الانعام 6، آیت 141) ’’اور زمین میں فساد نہ کرو، اس کے بعد کہ اس کی ترتیب ہو جائے‘‘۔ (سورہ اعراف 7، آیت 56)۔
جسٹس فائز عیسیٰ کی ماحول دوستی
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بیشتر فیصلوں میں ماحول دوستی کا عکس نظر آتا تھا، ایک کیس میں ریمارکس دیے کہ فطرت کے توازن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کرنے کی وارننگ پر دھیان نہیں دیا جاتا، کچھ لوگ فطرت کو وسائل کے لیے ایک غیر منقولہ ذخیرے کے طور پر دیکھتے ہیں اور فطرت کو ختم کرنے اور منافع خوری کو اپنا حق سمجھتے ہیں، جنگل کے درخت حساس مخلوق ہیں اور انسانوں کی طرح حیاتیاتی برادری کا حصہ ہیں، انسان اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو تو بچاتا ہے لیکن فطری دنیا پر ظلم کرتا ہے۔
گرین ایریا پر اشرافیہ کے قبضے سے متعلق کیس میں سخت ریمارکس
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بطور سپریم کورٹ جج ایک کیس میں پارکوں کے تحفظ اور گرین ایریا پر اشرافیہ کے قبضے پر سخت ریمارکس دیے تھے کہ پارکس اور گرین ایریا کو نجی استعمال کرنے کے لیے نہیں دینا چاہیے، آئین کا تقاضا ہے کہ سماجی انصاف اسلامی اصولوں پر ہو، زمین ریاست کا قیمتی اثاثہ ہے اور جب کسی غریب ریاست کی جانب سے اشرافیہ کو مفت یا کم نرخ پر زمین دی جاتی ہے تو اس سے ریاست کا بہت نقصان ہوتا ہے، اس قوم کے غریب بڑی مشکل کی زندگی گزارتے ہیں اور اشرافیہ نے عوام اور ملک کی بے توقیری کرتے ہوئے زمینوں پر قبضہ کیا ہوا ہے۔