سپریم کورٹ: پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر بینچز بنانے سے متعلق حکم امتناع ختم

پیر 18 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر بینچز بنانے سے متعلق حکم امتناع ختم کر دیا ہے، اور ایکٹ میں شامل دیگر معاملات پر فل کورٹ سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی کر دی ہے۔

عدالتی حکمنامہ

سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے جاری عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے ویانا جانا ہے اور مزید وقت بھی مانگا ہے۔ اس کے علاوہ درخواست گزار کے وکلا نے تحریری جواب کے لیے 2 دن مانگے ہیں۔

حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ تمام فریقین اپنے تحریری معروضات 25 ستمبر تک جمع کرا دیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ کوشش کے باوجود آج کیس کی سماعت مکمل نہیں کر سکے۔

فل کورٹ بنانے کی درخواستیں منظور

چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے فل کورٹ بینچ نے  پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف اپیلوں پر فل کورٹ بنانے کی درخواستیں منظور کر لیں۔ 15 ججوں پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے فل کورٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت کی۔

’ملکی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ آف پاکستان سے کسی بھی کیس کی کارروائی براہِ راست نشر کی گئی‘۔

وفاقی حکومت کی ایکٹ کے خلاف درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا

وفاقی حکومت کی جانب سے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا کی گئی ہے، اور اٹارنی جنرل کے ذریعے جواب سپریم کورٹ میں جمع کرایا ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے (جنہوں نے حلف اٹھانے کے بعد پہلی بار کیس سنا) سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ میں آئین و قانون کے تابع ہوں سپریم کورٹ کے فیصلوں کا نہیں۔ ’اس ملک میں تو مارشل لا بھی لگتے رہے اور اس دور میں بھی فیصلے آئے‘۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ میں یہ سارا وزن نہیں اٹھانا چاہتا، بلکہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔

چیف جسٹس کی خواجہ طارق رحیم کو دلائل کا آغاز کرنے کی ہدایت

آج جب سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ 9 درخواستیں ہمارے پاس آئی ہیں، ان میں کون کون وکیل ہے؟۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ دلائل دوبارہ سے شروع ہوں گے، فل کورٹ بنانے کی 3 درخواستیں تھیں جن کو منظور کیا جا رہا ہے۔

اس موقع پر چیف جسٹس پاکستان نے درخواست گزار کے وکیل خواجہ طارق رحیم ایڈووکیٹ کو دلائل کا آغاز کرنے کی ہدایت کی۔

چیف جسٹس کی سماعت شروع ہونے میں تاخیر پر معذرت

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ معذرت چاہتا ہوں کہ سماعت شروع ہونے میں تاخیر ہوئی، تاخیر کی یہ وجہ تھی کہ سماعت کو لائیو دکھایا جاسکے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس کو حل کرنے کا بہتر طریقہ یہ تھا کہ اس پر فل کورٹ بنایا جائے۔ فل کورٹ کے لیے 3 درخواستیں بھی آئی تھیں۔ فل کورٹ کی تشکیل کے لیے ایک درخواست پاکستان بار کونسل کی جانب سے اور 2 دیگر کی جانب سے دائر کی گئیں، انہوں نے کہاکہ درخواستوں کو منظور کیا جاتا ہے۔

اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہاکہ ہم عدالت کے ساتھ ہیں۔ اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ خواجہ صاحب آپ کونسی درخواست میں وکیل ہیں۔ خواجہ طارق رحیم نے بتایا کہ’ میں درخواست گزار راجا عامر کی جانب سے وکیل ہوں‘۔

بینچ کی ممبر جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ  اس قانون میں اپیل کا حق دیا گیا ہے اس پر آپ کیا دلائل دیں گے۔ وکیل خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ ’مجھے اتنا علم ہے کہ مجھے اپیل کا حق نہیں‘۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اس میں دیگر رولز ہیں ان کا کیا ہوگا؟ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ اگر یہ کیس سنے گا تو اسی ایکٹ کی سیکشن 5 کا کیا ہوگا، کیا سیکشن 5 میں جو اپیل کا حق دیا گیا ہے اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ صاحب آپ جیسے دلائل دینا چاہتے ہیں ویسے دیں اپنی مرضی سے دلائل دیں اور بنیچ ممبر نے جو سوال کیا اس کا بھی جواب دیں۔ اپنی درخواست پر فوکس کریں، ہمیں  ہزاروں کیس نمٹانے ہیں۔

مزید پڑھیں

وکیل درخواست گزار خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فل کورٹ کے ذریعے اپنے رولز بنا رکھے تھے، پارلیمینٹ نے سپریم کورٹ کے رولز میں مداخلت کی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے خواجہ طارق رحیم سے پوچھا ’خواجہ صاحب جو کچھ ماضی میں ہوتا رہا آپ اس کو سپورٹ کرتے ہیں‘۔ چیف جسٹس نے کہا خواجہ صاحب اپنے کسی معاون کو کہیں کہ سوالات نوٹ کرے، آپ کو فوری طور پر جواب دینے کی ضرورت نہیں، اپنے دلائل کے آخر میں سب سوالات کے جواب دے دیں۔ آپ بتائیں کہ پورا قانون ہی غلط تھا یا چند شقیں غلط ہیں؟۔

خواجہ صاحب کیا آپ کو قبول ہے کہ ایک شخص بینچ بنائے، جسٹس اطہر من اللہ

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ’بینچ کی تشکیل سے متعلق کمیٹی بنانے کا قانون کیا جوڈیشل پاور دے رہا ہے یا انتظامی پاور؟ کیا پارلیمان انتظامی اختیارات سے متعلق قانون بنا سکتی ہے؟ کیا پارلیمان نئے انتظامی اختیارات دے کر سپریم کورٹ کی جوڈیشل پاور کو پس پشت ڈال سکتی ہے؟۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ خواجہ صاحب کیا آپ کو قبول ہے کہ ایک بندہ شخص بنائے؟ پارلیمان نے اسی چیز کو ’ایڈریس‘ کرنے کی کوشش کی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مؤکل کی ذاتی دلچسپی تھی یا عوامی مفاد میں درخواست لائے ہیں؟ اس پر  خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ ’درخواست عوامی مفاد میں لائی گئی ہے‘۔

کیا عدلیہ کی اندرونی آزادی کا معاملہ پارلیمینٹ کے ہاتھ میں دیا جا سکتا ہے؟ جسٹس منیب اختر

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں اپنے ساتھیوں سے بھی درخواست کروں گا بشمول میرے ہم سب آپ کے لیے مشکل بنا رہے ہیں، آپ سیکشن 5 کو آئینی سمجھتے ہیں یا غیر آئینی؟۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ’میں سوال آسان بنا دیتا ہوں، آپ اپنے مؤکل کے لیے اپیل کا حق چاہتے ہیں یا نہیں؟۔

خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ ایک اچھی چیز اگر غیر آئینی طریقے سے دی گئی تو وہ غلط ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ ’سیکشن 5 آئینی ہے یا غیر آئینی؟ ‘۔ خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ یہ غیر آئینی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا آپ چاہیں تو ہمیں سوالات کے تحریری جوابات دے سکتے ہیں۔

خواجہ طارق رحیم نے کہاکہ پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا اختیار آئین سے مشروط ہے۔ رولز بنانے اور پریکٹس اینڈ پروسیجر کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا آئین کے ساتھ قانون کا بھی کہا گیا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ خواجہ صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں یہ قانون بنانا پارليمان کا دائرہ کار نہیں تھا یا اختیار نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے خواجہ طارق رحیم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا ’خواجہ صاحب آپ جو باتیں کر رہے اس پر الگ درخواست لے آئیں ابھی اپنی موجودہ درخواست پر فوکس کریں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدلیہ کی بیرونی عناصر سے آزادی اہم ہے تو اندرونی آزادی بھی اہم ہے۔ پارلمینٹ نے اس قانون سے اندرونی آزادی کو فوکس کیا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا عدلیہ کی اندرونی آزادی کا معاملہ پارلیمینٹ کے ہاتھ میں دیا جا سکتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کے لیے احترام ہے مگر کیا یہ کوئی حل ہے؟ خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اندرونی معاملات میں کسی اور کی مداخلت ہو گی تو یہ سپریم کورٹ نہیں رہے گی۔

حلف کے تحت آئین اور قانون کے مطابق کام کروں گا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ خواجہ صاحب آپ ہر سوال کا جواب دینے لگ جاتے ہیں، آپ سوالات نوٹ کریں پھر جواب دیں۔ ہم یہاں آپس میں بحث کرنے نہیں بیٹھے، کئی قوانین مجھے بھی پسند نہیں مگر میں نے حلف اُٹھایا ہے۔ حلف کے تحت آئین اور قانون کے مطابق کام کروں گا ہم نے اس کیس میں سوموٹو نوٹس نہیں لیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم پر اتنا بڑا حملہ ہوتا تو ہم کئی معاملات پر سوموٹو لے چُکے ہوتے۔ آپ بار بار ذاتی رائے دیتے ہیں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ آپ آرٹیکل 184/3 پر بات کریں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ ہمارے سوالوں کے جوابات بعد میں تحریری طور پر عدالت میں جمع کروا دیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا آپ پارلیمنٹ کا دائرہ اختیار محدود کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کیا کیا نہیں کر سکتی؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا پارلمینٹ قانون سازی سے سپریم کورٹ کے رولز میں ترامیم کر سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رولز کو چھوڑیں آئین کی بات کریں کیا آپ چیف جسٹس کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں بنانا چاہتے؟ ہم اس قانون سے بھی پہلے اوپر والے کو جواب دہ ہیں، مجھے بطور چیف جسٹس آپ زیادہ مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ میں پھر آپ کی درخواست 10 سال نہ لگاؤں تو آپ کیا کریں گے۔ آپ کا آئین سپریم کورٹ سے نہیں اللہ کے نام سے شروع ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نےسماعت کے دوران ریکوڈک کیس کا بھی حوالہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ  ریکوڈک کیس میں ملک کو 615 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، ایسے اختیارات آپ مجھے دینا بھی چاہیں تو نہیں لوں گا۔ چیف جسٹس نے خواجہ طارق رحیم سے کہا کہ آپ ابھی جواب نہیں دینا چاہتے تو ہم اگلے وکیل کو سن لیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی درخواست گزار کے وکیل خواجہ طارق رحیم کے دلائل مکمل ہو گئے۔

پارلیمنٹ نے صرف یہ کیا کہ چیف جسٹس کا اختیار 2 سینیئر ججز کے ساتھ بانٹ دیا، جسٹس اطہر من اللہ

دوسرے درخواست گزار کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل شروع کیے تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ قانون دنیا کا بدترین قانون بھی ہو سکتا ہے مگر آرٹیکل 184/3 کے تحت دیکھیں گے۔ آرٹیکل 184/3 تو عوامی مفاد کی بات کرتا ہے آپ بتائیں اس آرٹیکل کے تحت یہ درخواست کیسے بنتی ہے؟۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پارلیمنٹ نے صرف یہ کیا کہ چیف جسٹس کا اختیار 2 سینیئر ججوں کے ساتھ بانٹ دیا، اس بات سے کون سا بنیادی حق متاثر ہوتا ہے۔ پارلمینٹ کا یہ اقدام تو عدلیہ کی آزادی کو مضبوط بنائے گا۔ باہر سے تو کوئی نہیں آیا، چیف جسٹس نے تو 2 سینیئر ججوں سے ہی مشاورت کرنی ہے۔

بینچ کے ممبر جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ چیف جسٹس کے اختیار کو چھیڑنے سے عدلیہ کی آزادی خطرے میں پڑنے والی کوئی بات نہیں۔ آئین اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ ایک قانون پریکٹس اینڈ پروسجیر کے لیے ہو سکتا ہے۔ وکیل امتیاز صدیقی نے کہاکہ یہ قانون پارلیمنٹ سے نہیں ہو سکتا فل کورٹ کر سکتا ہے۔

 جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ قانون پارلمینٹ سے ہی آتا ہے اور کہاں سے آنا ہے۔ ہم سوئے رہیں ارجنٹ کیس مقرر ہی نہ کریں تو وہ ٹھیک ہے۔ عوام پارلمینٹ کے ذریعے ہمیں کہیں کہ وہ کیس 14 دن میں مقرر کریں تو کیا وہ غلط ہو گا؟ امتیاز صدیقی نے کہا کہ مجھے سانس لینے کی مہلت دیں سب سوالوں کے جوابات دوں گا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ صدیقی صاحب آپ سوالات لکھ کہاں رہے ہیں؟ ہم بولی جا رہے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ صدیقی صاحب آپ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ماضی میں جو ہوا اصلاحات ضروری تھیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے حلف اُٹھایا ہے کہ آئین اور قانون کے تابع ہوں میں نے یہ حلف نہیں اٹھایا کہ میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کے تابع ہوں۔ یہاں کئی مارشل لاء بھی لگے ہیں میں ان فیصلوں کا تابع نہیں۔ میرے سامنے وہ فیصلے پڑیں گے تو روک دوں گا۔ میرے سامنے آئین سے پڑھ کر بتائیں کہ کیا غلط ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ آپ یہ جانتے ہیں کہ یہ قانون بہت اچھا ہے مگر پارلیمینٹ یہ نہیں بنا سکتی؟ امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ ’جی میں یہی کہہ رہا ہوں‘۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین تو سپریم کورٹ کی بات کرتا ہے آپ چیف جسٹس کے اختیار پر بات کر رہے ہیں۔ جسٹس فائز نے کہا کہ میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں میں نے آپ کو اپنا وکیل نہیں کیا۔ چیف جسٹس کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔

زیرالتوا مقدمات کی تعداد 57 ہزار تک پہنچ چُکی ہے، ہمارا وقت بہت قیمتی ہے: چیف جسٹس

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ بتائیں بنیادی انسانی حقوق کیسے متاثر ہوئے؟ اس پر امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ خلاف آئین قانون سازی سے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پھر آپ بتا دیں کون سا بنیادی حق متاثر ہوا ہے، زیرالتوا مقدمات کی تعداد 57 ہزار تک پہنچ چُکی ہے، ہمارا وقت بہت قیمتی ہے۔ امتیاز صدیقی صاحب میں ابھی تک آپ کے خوبصورت دلائل نہیں سن پا رہا۔ سوالات نوٹ کریں اور جوابات دیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدلیہ کی بیرونی ہی نہیں اندرونی آزادی بھی اہم ہے اگر قانون میں اپیل کا حق دیا جا رہا تو وہ بہت اچھی بات ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ باہر کی دنیا میں بھی بینچ چیف جسٹس نہیں بناتا، نیپال جیسے ملک میں بھی کلینڈر سال شروع ہونے سے پہلے فل کورٹ بیٹھتی ہے۔ بیلٹ کے ذریعے وہاں بنیچوں کی تشکیل کا معاملہ طے پاتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ امتیاز صاحب مجھے لگتا ہے آپ اپنی درخواست پر دلائل دینا ہی نہیں چاہتے، آپ جج نہیں آپ دلائل دیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ پارلیمینٹ کے پاس اختیار ہے کہ وہ ہمارے فیصلوں کو غیر مؤثر بنا دے۔

قانون سے ادارے میں جمہوری طور پر شفافیت آئے گی، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اپنے دلائل میں فل کورٹ کو بتایا کہ یہ درخواستیں ناقابل سماعت ہیں، قانون ایک عہدے کے اختیار سے متعلق ہے، اس قانون سے ادارے میں جمہوری طور پر شفافیت آئے گی، گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت عدلیہ گورنرجنرل کی منظوری سے قوانین بناتی تھی۔ آٸین پاکستان 195کے تحت عدلیہ کے ضوابط صدر کی منظوری سے مشروط تھے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آٸین پاکستان 1973 میں عدلیہ کی آزادی کا ذکر ہوا ہے، آئین بناتے وقت ایگزیکٹو برانچ کو ہٹایا گیا لیکن جوڈیشل برانچ وہی تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب صدر کی منظوری سے قوانین بنتے تھے تو کیا صدر کا صوابدیدی اختیار تھا؟ کیا یہ صدر کا صوابدیدی اختیار تھا یا ایڈواٸس پر منظوری ہوتی تھی۔ آپ نے درخواست قابل سماعت نہ ہونے پر بات شروع کی تھی وہ مکمل کریں، آپ نے درخواست گزار کے وکیل کے نکات پر بات شروع کر دی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک قانون اس وقت تک قابل عمل ہے جب تک وہ غلط ثابت نہ کر دیا جائے، یہ ثابت کرنے کی ذمہ داری اس پر ہے جو قانون کو چیلنج کرے۔ ہمارے پاس اس معاملے پر ہائیکورٹ سے کم اختیارات ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ عوامی خدشات کو دور کرتا ہے، آرٹیکل 184/3 کے تحت بنیادی حقوق اور عوامی مفاد کے کیسز سنے جا سکتے ہیں، درخواست گزاروں کا اعتراض قانون نہیں بلکہ قانون سازی کے طریقہ پر ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ سوال صرف یہ ہے کہ کون سا بنیادی حق متاثر ہوتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا اس کیس میں 184 (3) کی شرائط پوری ہوتی ہیں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے دلائل کے مطابق یہ قانون درخواست گزاروں کی سہولت کے لیے بنایا گیا ہے۔

سپریم کورٹ کے اختیارات کا معاملہ ہائیکورٹ سنے کیا یہ مناسب ہوگا؟ جسٹس اعجازالاحسن

سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ سپریم کورٹ کے اختیارات کا معاملہ ہائیکورٹ سنے کیا یہ مناسب ہوگا؟ جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے کہا کہ 184(3)  میں حقوق کے نفاذ کا ذکر ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ انصاف تک فراہمی بنیادی حق ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاکستان میں کئی چیزیں خلاف آئین ہو رہی ہیں مگر وہ 184/3 میں نہیں آتیں۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو 184/3 پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا شاید ہائیکورٹ اس قانون کو کالعدم کرسکتی ہے، ہم اپیل کے فورم پر اسے سن سکتے ہیں۔ 184/3 میں ہمیں مفاد عامہ اور بنیادی حقوق دونوں کو دیکھنا ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ فل کورٹ کی جانب سے کیس سننے سے اپیل کا حق متاثر ہوگا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اپیل کے بارے میں نے بریک میں بھی سوچا ہے، آرٹیکل 10 اے شخصیات سے متعلق بات کرتا ہے سپریم کورٹ سے متعلق نہیں۔

اس قانون سازی سے متاثرہ فریق کون ہوگا؟ چیف جسٹس کا سوال

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ اس قانون سازی سے متاثرہ فریق کون ہوگا؟، کس کو اس ایکٹ سے نقصان پہنچ رہا ہے، اس ایکٹ سے تو چیف جسٹس پاکستان کے اختیارات تقسیم ہوئے ہیں۔

اس موقع پر جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ کیا قانون سازی کے اختیار کا معاملہ عوامی مفاد کا نہیں؟۔

اٹارنی جنرل نے کہاکہ یہ معاملہ آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ دیکھ سکتی ہے۔

اس پر جسٹس عائشہ نے کہاکہ میں اپنے پہلے سوال پر دوبارہ آتی ہوں، یہی قانون اپیل کا حق بھی دیتا ہے، فل کورٹ کے خلاف اپیل کہاں جائے گی۔

چیف جسٹس نے کہاکہ ہمیں ایک دو الفاظ میں نہیں پھنسنا چاہیے پورا آئین دیکھنا چاہیے۔ آئین کو مجموعی طور پر پڑھنا ہوگا ایک دو الفاظ کو لے کر بیٹھ جانا درست نہیں۔

کیا دوسری اپیل کا حق سادہ قانون سازی سے دیا جا سکتاہے، جسٹس اعجاز الاحسن

سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ اگر پارلیمنٹ سپریم کورٹ میں دوسری اپیل کا حق دے تو کیا ایسی قانون سازی ممکن ہوگی؟، ایک اپیل کا حق تو آئین دیتا ہے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا دوسری اپیل کا حق سادہ قانون سازی سے دیا جا سکتا ہے؟۔

اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا آئین میں کون سی شق پارلیمنٹ کو دوسری اپیل کا حق دینے سے روکتی ہے؟۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا سپریم کورٹ کا مینڈیٹ ہائی کورٹ میں کیسے چیلنج ہوسکتا ہے؟۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں نے تمام سوالات نوٹ کر لیے ہیں بعد میں جواب دوں گا۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ ایکٹ اور قانون کا مطلب ایک ہی ہے تو آئین میں کہیں ایکٹ آف پارلیمنٹ اور کہیں قانون کا لفظ کیوں استعمال ہوا؟۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ عدالت کا دیا گیا فیصلہ بھی قانون ہوتا ہے۔ اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ عدالت کا فیصلہ حاوی ہو گا یا پارلیمنٹ کا قانون حاوی ہو گا۔

پارلیمان خلا میں کام نہیں کرتی: چیف جسٹس پاکستان

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ شیئرنگ کو کیوں نہیں دیکھ رہے، میں یہ سارا وزن نہیں اٹھانا چاہتا، اپنے ساتھیوں کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ یہاں تو مسئلہ ہی ختم ہو جاتا ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ ممکن ہے پارلیمان کہے کہ 3 ججز نہیں بیلٹنگ کے ذریعے بینچ بننا چاہیے، یا پارلیمان یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ 3 نہیں سب ججز بیٹھ کر فیصلہ کریں۔

اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ پارلیمان خلا میں کام نہیں کرتی، وہاں اپوزیشن بھی ہوتی ہے۔

اعجاز الاحسن نے کہا فرض کریں اگلی پارلیمان ایسا کہتی ہے تو کیا ہو گا؟۔ اس پر چیف جسٹس نے جواب دیا اگلی دفعہ جب کیس آئے گا تو دیکھیں لیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایک مہینہ کیس چلا لیں، اُدھر ڈیڑھ سو مقدمات اور بڑھ جائیں گے۔ میں نے اسٹے کے باوجود 2 سینیئر ججز سے مشاورت کی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت فل کورٹ اجلاس

آج صبح کیس کی سماعت سے قبل چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت فل کورٹ اجلاس ہوا۔ جس میں سپریم کورٹ کی آج کی کارروائی براہ راست دکھانے سے متعلق مشاورت کی گئی۔

پروٹوکول اور گارڈ آف آنر لینے سے انکار

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بغیر پروٹوکول کے سپریم کورٹ پہنچے تو انہوں نے گارڈ آف آنر لینے سے انکار کر دیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بغیر پروٹوکول کے سپریم کورٹ پہنچے تو عدالت عظمیٰ کے اسٹاف نے ان کا بھرپور استقبال کیا اور رجسٹرار سپریم کورٹ نے انہیں گلدستہ پیش کیا۔

پولیس نے چیف جسٹس کو پہلے دن سپریم کورٹ آمد پر گارڈ آف آنر پیش کرنا تھا لیکن چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے گارڈ آف آنر لینے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے عدالت عظمیٰ کے اسٹاف سے گفتگو میں کہا کہ عدالت میں لوگ خوشی سے نہیں آتے مسائل ختم کروانے کے لیے آتے ہیں، سائلین سے ایسا سلوک کیجیے جیسے میزبان مہمان سے کرتا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا  کہنا تھا کہ آپ لوگوں کا شکریہ، آپ کا بہت سا تعاون چاہیے۔ آج میٹنگز اور فل کورٹ ہے، آپ لوگوں سے تفصیلی ملاقات ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ انصاف کے دروازے کھلے اور ہموار رکھیں، آنے والے لوگوں کی مدد کریں۔

صحافی عامر سعید عباسی نے اپنی ’ایکس‘ پوسٹ میں بتایا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے بلٹ پروف بی ایم ڈبلیو گاڑی لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ 1300 سی سی کار استعمال کریں گے جبکہ سیکیورٹی بھی ضروری اور مختصر ہوگی۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس، کب کیا ہوا؟

سپریم کورٹ(پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کا نفاذ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ نے 13 اپریل کو معطل کر دیا تھا۔

سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالت عظمیٰ، پارلیمنٹ کا بہت احترام کرتی ہے لیکن اس نے اس بات کا جائزہ بھی لینا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے نفاذ میں آئین سے انحراف، آئین کی خلاف ورزی یا آئین سے ماورا کوئی شق تو شامل نہیں کی گئی۔

درخواست گزاروں نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی تھی کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا تصور، تیاری، توثیق اور اسے منظور کیا جانا بددیانتی پر مبنی ہے، لہٰذا اسے خلاف آئین قرار دے کر کالعدم کیا جائے۔

جسٹس سید منصور علی شاہ نے نیب ترمیمی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس سے درخواست کی تھی کہ وہ نیب ترمیمی کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دینے پر غور کریں یا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کی قانونی حیثیت کا فیصلہ ہونے تک انتظار کریں۔

اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان کو آج 18 ستمبر کو ہونے والی سماعت کے لیے نوٹس پہلے ہی جاری کیے جا چکے ہیں۔

کیس کا پس منظر

10 اپریل 2023 کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی طرف سے پیش کیا گیا سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل متفہ رائے سے منظور کیا گیا تھا۔

12  اپریل کو وفاق کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات سے متعلق منظورہ کردہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا تھا۔

اسی روز سپریم کورٹ میں ایکٹ کی منظوری کیخلاف 4 درخواستیں دائر کی گئیں، 2 وکلا جبکہ 2 شہریوں کی جانب سے دائر کی گئی تھیں، جنہیں 13 اپریل کو سماعت کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ سابق چیف جسٹس نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023‘ پر تاحکم ثانی عملدرآمد روک دیا تھا۔

21 اپریل 2023 کو سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 پارلیمنٹ کے بعد صدر سے دوبارہ منظوری کی آئینی مدت گزرنے پر از خود منظور ہوکر قانون کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

قومی اسمبلی سیکریٹریٹ سے جاری بیان کے مطابق مجلس شوریٰ (پارلیمان) کا سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 دستور پاکستان کی دفعہ 75 کی شق 2 کے تحت صدر سے منظور شدہ سمجھا جائے گا۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر 2023 بل کیا ہے؟

پارلیمان سے منظور کیے گئے اس قانون میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کے سامنے کسی وجہ، معاملہ یا اپیل کو چیف جسٹس اور 2 سینئر ترین ججز پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا گیا بینچ سنے گا اور اسے نمٹائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔

عدالت عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے قانون میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184 (3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔

اگر کمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ II کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی، جس میں کم از کم 3 ججز شامل ہوں گے، سپریم کورٹ آف پاکستان جس میں اس معاملے کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

آرٹیکل 184(3) کے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے بینچ کے کسی بھی فیصلے پر اپیل کے حق کے بارے میں بل میں کہا گیا کہ بینچ کے حکم کے 30 دن کے اندر اپیل سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے پاس جائے گی، اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔

بل میں قانون کے دیگر پہلوؤں میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں، اس میں کہا گیا کہ ایک پارٹی کو آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کے لیے اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔ کسی وجہ، اپیل یا معاملے میں جلد سماعت یا عبوری ریلیف کے لیے دائر کی گئی درخواست 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp