مجھے سانس لینے کی مہلت تو دیں، وکیل کی فل کورٹ کے سامنے استدعا

پیر 18 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ آف پاکستان میں آج ایک تاریخی دن تھا جب جسٹس قاضی فائز عیسی بطور چیف جسٹس پہلے روز سپریم کورٹ پہنچے اور غیر معمولی فیصلے کیے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی صبح 9 بجے اپنی گاڑی میں سپریم کورٹ پہنچے جہاں ان کے سٹاف نے ان کا استقبال کیا اور انہیں گلدستہ پیش کیا۔

پولیس کی جانب سے نئے آنے والے چیف جسٹس کو گارڈ آف آنر دیا جاتا ہے تاہم جسٹس قاضی فائز عیسی نے گارڈ آف آنر لینے سے معذرت کی۔

چیف جسٹس نے پہلے روز ہی فل کورٹ اجلاس طلب کیا اور پہلے روز کی کارروائی براہ راست دکھانے کی منظوری لی۔

خیال رہے کہ گزشتہ 2 چیف جسٹس کے دور میں فل کورٹ اجلاس نہیں بلایا گیا تھا جسٹس قاضی فائز عیسی نے 4 سال بعد بلائے گئے اجلاس کی سربراہی کی۔

پہلے روز سپریم کورٹ پروسجرل ایکٹ ساڑھے 9 بجے سماعت کے لیے مقرر تھا تاہم فل کورٹ اجلاس اور براہ راست نشریات کے انتظامات کی وجہ سے سماعت ساڑھے 11 بجے شروع ہوئی۔

کمرہ عدالت میں روسٹرم کے سامنے ایک اور مہمانوں کی گیلری میں 4 کیمرے ججز صاحبان کے لیے لگائے گئے تھے۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست نشر کی جارہی تھی۔ اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ کی کارروائی براہ راست ویب سائیٹ پر نشر کرنے کا تجربہ ہوچکا ہے۔

سماعت کا آغاز ہوا تو عدالتی کارروائی تاخیر سے شروع کرنے پر چیف جسٹس نے معذرت کی۔ ابتدا میں خواجہ طارق رحیم روسٹرم پر آئے اور دلائل کا آغاز کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 4 درخواست گزاروں نے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی تھی جو منظور کر لی گئی ہے اور اب ہم سماعت کا باقاعدہ آغاز کر رہے ہیں۔

سماعت دلچسپ ہونے والی ہے اس بات کا اندازہ اس لمحے سے ہوا جسٹس عائشہ ملک نے سوال اٹھایا اور کہا کہ اگر فل کورٹ اس کیس کا فیصلہ کرتی ہے تو پھر اپیل کا حق جو دیا گیا ہے اس کا کیا ہوگا؟ یہ وہ لمحہ تھا جس کے بعد سوالات کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا۔

دوران سماعت چیف جسٹس بار بار خواجہ طارق رحیم کو ہدایت کرتے کہ آپ سوالات نوٹ کریں، بعد میں اس کا جواب دیجئے گا۔ خواجہ طارق رحیم ایک سوال کا جواب دیتے تو جسٹس اطہر من اللہ کی طرف سے ایک اور سوال آجاتا، ان کے سوال کا جواب دیتے تو جسٹس عائشہ ملک سوال کر دیتیں۔ ساڑھے 11 بجے شروع ہونے والی سماعت کے قریباً 2 گھنٹے میں دلائل مکمل کیے۔

جس کے بعد درخواست گزار کے وکیل امتیاز صدیقی دلائل کے لیے روسٹرم پر آئے تو انہیں بھی ججز کی جانب سے تابڑ توڑ سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 184/3 تو عوامی مفاد کی بات کرتا ہے آپ بتائیں اس آرٹیکل کے تحت یہ درخواست کیسے بنتی ہے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ نے صرف یہ کہا کہ چیف جسٹس کا اختیار 2 سینئر ججز کے ساتھ بانٹ دیا جائے اس سے کون سا بنیادی حق متاثر ہوتا ہے؟

وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ یہ قانون پارلیمنٹ سے پاس نہیں ہو سکتا فل کورٹ ہی کرسکتا ہے۔ اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانون پارلیمنٹ سے ہی آتا ہے اور کہاں سے آنا ہے۔ ہم سوئے رہیں ارجنٹ کیس بھی مقرر نہ کریں تو ٹھیک ہے، عوام پارلمینٹ کے ذریعے ہمیں کہیں کہ وہ کیس 14 دن میں مقرر کریں تو کیا وہ غلط ہوگا؟

امتیاز صدیقی نے کہا کہ مجھے سانس لینے کی مہلت دیں سب سوالات کے جوابات دوں گا۔ سماعت کے دوران ججز ایک دوسرے کے سوال کا بھی جواب دیتے رہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدلیہ کی بیرونی عناصر سے آزادی اہم ہے تو اندرونی آزادی بھی اہم ہے۔

اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عدلیہ کی اندرونی آزادی کا معاملہ پارلیمنٹ کے ہاتھ میں دیا جا سکتا ہے؟ اندرونی معاملات میں کسی اور کی مداخلت ہوگی تو یہ سپریم کوٹ نہیں رہے گی۔

ججز کے سوالات کا سلسلہ بڑھا تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اور وکیل امتیاز صدیقی کے درمیان تلخی بھی ہوئی۔ ‏چیف جسٹس کے بار بار ٹوکنے پر وکیل امتیاز صدیقی غصے میں آ کر بولے آپ مجھے کہتے ہیں دلائل دیں، میں دلائل دیتا ہوں تو آپ ٹوک دیتے ہیں۔ میں آدھے گھنٹے سے آپ کو سن رہا ہوں صبر کے ساتھ میرے دلائل بھی سنیں۔ آپ اگر میری تضحیک کریں گے تو میں دلائل نہیں دونگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp