طالبان کی پسپائی کے بعد چترال میں تعلیمی و سیاحتی سرگرمیاں بحال

پیر 18 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

خیبر پختونخوا کے ضلع چترال میں پاک افغان سرحدی علاقوں میں طالبان عسکریت پسندوں کی پسپائی کے بعد اب زندگی معمول پر آگئی ہے اور وادی کیلاش کی جانب غیر ملکی سیاحوں نے بھی رخ کرنا شروع کر دیا ہے۔

مذکورہ علاقے کلیئر ہونے کے ساتھ ہی سرحدی علاقوں میں سیکیورٹی خدشات کے باعث بند کیے گئے اسکولوں کو بھی دوبارہ کھول دیا گیا ہے اور تعلیمی سرگرمیاں بحال ہوگئی ہیں۔

گزشتہ روز ڈپٹی کمشنر لوئر چترال، سربراہ چترال اسکاؤٹ اور ڈی پی او نے ضلعے کے مقامی سیاسی، سماجی و مذہبی رہنماؤں کو سیکیورٹی صورت حال خصوصاً حالیہ حملوں کے بعد کے حالات پر بریفنگ دی۔

ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ اب حالات مکمل طور پر نارمل ہیں اور طالبان عسکریت پسندوں کے حملے کو مکمل طور پر پسپا کر دیا گیا ہے جس کے بعد دہشتگرد افغانستان واپس بھاگ گئے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ افغان سرحد کے ساتھ سیکیورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے اور کڑی نگرانی کی جا رہی ہے۔

چترال میں حملے کہاں ہوئے تھے؟

6 ستمبر کی صبح افغانستان سے عسکریت پسندوں نے لوئر چترال میں سیکیورٹی پوسٹوں پر حملہ کیا تھا۔ دہشتگردوں نے ایک وقت میں 2 الگ مقامات سے حملے کیے۔ کیلاش وادی کے گاؤں بمبوریت کے دورافتادہ علاقے استوائی میں جبکہ دوسرا جنجیرات کوہ میں کیا تھا۔

سیکیورٹی فورسز نے دونوں حملوں کو ناکام بنا دیا جبکہ تازہ دم دستے بھی پہنچا دیے گئے۔ ساتھ پورے علاقے میں طویل آپریشن کرکے کلیئر کیا گیا۔ دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کے دوران 5 سیکیورٹی اہلکار شہید اور 3 زخمی ہو ئے تھے جبکہ 16 دہشتگرد ہلاک کر دیے گئے۔

سیاحت بحال، ایک دن میں 1600 سیاح چترال آئے، انتظامیہ

ڈپٹی کمشنر لوئر چترال محمد علی خان نے وی نیوز کو بتایا کہ طالبان حملے کے بعد چترال کے سرحدی علاقوں میں زندگی معمول پر ا گئی ہے جبکہ کیلاش ویلی سمیت دیگر سیاحتی علاقے سیاحوں کے لیے کھلے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بڑی تعداد میں سیاحوں نے چترال کا رخ کیا ہے جو کیلاش اور دیگر علاقوں میں گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ضلعی ان انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ لسٹ کے مطابق چترال کے تمام علاقے کھلے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 17  سمتبر کو 1600 سیاحوں نے چترال کا رخ کیا جن میں 22 غیر ملکی سیاح بھی شامل تھے۔

ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ چترال میں اس وقت مکمل طور پر امن ہے اور جہاں حملے ہوئے تھے وہ ایسے پہاڑی علاقے ہیں جہاں کوئی آبادی بھی نہیں ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ سرحدی علاقوں میں سیکیورٹی سخت ہے۔

اسکول بھی کھول دیے گئے

6 ستمبر کو طالبان حملے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے کلین اپ آپریشن شروع کیا تھا اور سیکیورٹی خدشات کے باعث سرحد کے قریب 7 مختلف علاقوں میں اسکولوں کو بھی بند کر دیا گیا تھا جو اب دوبارہ کھول دیے گئے ہیں۔

 

 

ڈپٹی کمشنر نے تصدیق کی کہ تمام اسکولوں میں اب تعلیمی سرگرمیاں بحال ہو گئی ہیں اور بچے بلا خوف و خطر اسکول جا رہے ہیں۔

 

طالبان حملے کا مقصد محض توجہ حاصل کرنا تھا

پشاور کے سینیئر صحافی منظور علی سرحد کا تعلق چترال سے ہے اور وہ طالبان ایشوز پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ منظور علی کے مطابق یہ تاثر غلط ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں نے چترال پر قبضے کی نیت سے حملہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ ناممکن ہے اور ماننے والی بات بالکل نہیں ہے‘۔

منظور علی نے بتایا کہ نورستان سے چترال کے بارڈر تک 2 دن کا راستہ ہے جو مشکل اور دشوار گزار بھی ہے جبکہ وہاں سمتبر سے ہی سخت سردی شروع ہوجاتی ہے اور برف باری سے پیدل چلنے کے راستے بھی بند ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کہ طالبان کے لیے نورستان سے خوارک اور دیگر سامان پہاڑی چوٹی پر پہنچانا آسان نہیں اور آبادی نہ ہونے سے وہاں زیادہ قیام کرنا بھی آسان نہیں ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ طالبان کا چترال اور خاص کر کیلاش سرحد کے قریب حملہ کرنے کا مقصد صرف اور صرف توجہ حاصل کرنا تھا۔

منظور علی بے کہا کہ پاکستان کے ساتھ ملحقہ آفغان صوبوں نورستان، کنڑ اور بدخشتان میں ٹی ٹی پی کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں اور ملا فضل اللہ بھی کنڑ میں ہی ڈرون حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔

افغان امور کے ماہر سینیئر صحافی مشتاق یوسفزئی کے مطابق طالبان نورستان سے آئے تھے جو حملے کے بعد افغان طالبان کی عبوری حکومت کے دباؤ پر واپس چلے گئے۔

انہہوں نے بتایا کہ طالبان کی قیادت کنڑ میں بیٹھتی ہے جس کے باعث چترال کے سرحدی علاقوں کو سیکیورٹی خطرات لاحق رہتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp