سائنسدان کنکریٹ سے سستی ترین توانائی حاصل کرنے میں کامیاب، اب گھر میں خود بجلی پیدا کر سکتے ہیں

پیر 18 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سائنسدانوں نے 24 گھنٹے چلنے والا ایک نیا کم لاگت توانائی والا کنکریٹ اسٹوریج سسٹم متعارف کروایا ہے جسے کسی بیٹری کی ضرورت نہیں ہے۔

اس وقت شمسی اور ہوا سے بجلی کی پیداوار کو توانائی کے بہترین قابل تجدید ذرائع تصّور کیا جاتا ہے لیکن ان کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہےکہ یہ دونوں ذرائع ہمیشہ دستیاب نہیں ہوتے۔

ہوا ہمیشہ نہیں چلتی جب کہ سورج بھی ہمیشہ نہیں چمکتا۔ اس کے علاوہ ان دونوں ذرائع کو جمع کرنے کے لیے ہمیں بیٹریوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور بیٹریاں بھی مہنگی ترین ہوتی ہیں اور زیادہ دیر تک چلتی بھی نہیں ہیں۔

درج بالا مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے امریکا میں میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے محققین نے توانائی کے ان ذرائع کا بھی متبادل ایک حل ڈھونڈ نکالا ہے۔

 شائع ہونے والے ایک مقالے میں محققین نے تفصیل بتائی ہے کہ انہوں نے سیمنٹ، پانی اور کاربن بلیک نامی کوئلے کو ملا کر ایک کنکریٹ تیار کی ہے جو توانائی کو ذخیرہ کرنے کے لیے بیٹری کے متبادل کے طور پر کام کرتی ہے۔

بنیادی طور پراسے ایک برقی کنکریٹ بھی کہا جا سکتا ہے جو نہ صرف ایک عمارت کی بنیاد بنا سکتا ہے بلکہ بیک وقت توانائی کو بھی ذخیرہ کرسکتا ہے۔

عمارتوں میں کاربن پر مبنی سپر کیپسیٹرز

محققین کو امید ہے کہ اس مواد کو گھروں اور دیگر عمارتوں میں لگایا جا سکتا ہے جس سے  شمسی توانائی یا توانائی کے دیگر ذرائع کے ساتھ مل کر یہ ایک آزادانہ اور پائیدار توانائی فراہم کرے گا۔

اگرچہ محققین اس ٹیکنالوجی سے بنی بنیادوں اور بلاکس کا تصور پیش کرتے ہیں، لیکن اس نظام کو عمارتی ڈھانچے کا لازمی حصہ ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔ اس مقالے کے شریک مصنف ایڈمیر میسک کا کہنا ہے کہ اس مواد کا استعمال راہداری، پکڈنڈی یا پھر صحن کے اردگرد باڑ اور چوکیوں کی تعمیر میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

 مقالے کے سینئر مصنف فرانز جوزف الم کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی ہر گھر کو پائیدار توانائی کی طرف منتقل کر سکتی ہے اور ہر کوئی اسے بھاری بھر بجٹ کے بغیر بھی گھر میں لگا اور استعمال کر سکتا ہے۔

سپر کیپسیٹرز کے دیگر فوائد

محققین کا کہنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کو محض عمارتوں تک ہی محدود کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ اس سے سڑکوں اور پارکنگ میں موجود سپر کیپسیٹرز وائرلیس طریقے سے الیکٹرک گاڑیوں کو بھی ریچارج کرسکتے ہیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ مواد نسبتا سستا ہے اور زمین پر ہر جگہ دستیاب ہے ، جو کئی طریقوں سے توانائی فراہم کر سکتا ہے۔ محققین نے نشاندہی کی کہ یہ مواد علم اور مہارت کا استعمال کرتے ہوئے مقامی طور پر تیار کیا جاسکتا ہے ، جس سے ایسی جگہوں پر پائیدار توانائی دستیاب ہوسکتی ہے جہاں پاور گرڈ کا بنیادی ڈھانچہ تک نہیں ہے۔

محققین کو سپر کیپسیٹرز کا ٹیسٹ کرنا چاہیے

محققین کو یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ سپر کیپسیٹر اپنی کارکردگی کھونے سے پہلے کتنے چارجنگ سائیکلز کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تاہم فرانز جوزف الم کا کہنا ہے کہ لیبارٹری میں ابتدائی تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ امریکا یا برطانیہ میں تقریباً 30 سال تک ایک اوسط گھر کو بجلی فراہم کرسکتے ہیں، لیکن ٹیکنالوجی کو بہتر بنانے کے بعد اس میں توسیع کی جاسکتی ہے۔

فرانز جوزف الم نے مزید کہا کہ سپر کیپسیٹر کو لیک پروف بنائے جانے کی ضرورت ہے تاہم یہ بہت اہم بات ہے کہ ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ سپر کیپسیٹر کام کرتا ہے اور زبردست توانائی پیدا کرتا ہے۔

کنکریٹ امریکا میں ہی نہیں، اسے کہیں بھی تیار کیا جاسکتا ہے

محققین نے بتایا کہ یہ ٹیکنالوجی دنیا بھر کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرے گی اور امید ہے کہ لوگوں کو توانائی کا متبادل حل سوچنے کی ترغیب دے گی۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ ٹیکنالوجی امریکہ سے ہی آئے، اسے کہیں بھی تیار کیا جا سکتا ہے۔

فرانز جوزف الم کا کہنا ہے کہ انہیں ہائی اسکول کے طالب علموں کی جانب سے درخواستیں موصول ہوئی ہیں جو یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آیا وہ اسکول کے منصوبے کے لیے چھوٹے سپر کیپسیٹرز بنا سکتے ہیں یا نہیں؟۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘ہم اس ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کے لیے تمام موجدوں کی مہارت پر انحصار کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ یہ نیوکلیئر فیوژن سے حاصل ہونے والی بجلی کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیزی سے مرکزی دھارے میں آ سکتی ہے اور انتہائی سستا طریقہ بھی ہے ۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp