کمرہ عدالت نمبر ایک میں جسٹس بندیال اب بھی موجود ہیں؟

پیر 18 ستمبر 2023
author image

اسامہ خواجہ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

دفتری امور نمٹا کر جب سپریم کورٹ پہنچا تو قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 15 رکنی فل کورٹ بنچ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت کا آغاز کرچکا تھا۔

کمرہ عدالت سے باہر سپریم کورٹ کی راہداریاں پیر کے دن بھی ویران تھیں شاید دیگر کیسز نہ لگنے کے باعث سائلین نے عدالت کا رخ نہیں کیا تھا۔ صرف کمرہ عدالت نمبر ایک کے باہر بڑی تعداد صحافی، وکلا اور کچھ سیکبورٹی اہلکار موجود تھے۔ سپریم کورٹ کی عمارت صحافیوں کو نکال کر جتنی خالی تھی کمرہ عدالت نمبر ایک اس کے اُلٹ کھچا کچھ بھرا ہوا تھا۔

کچھ دیر کھڑے رہنے کے بعد آخری نشستوں پر بیٹھنے کی جگہ اس وقت ملی جب ایک وکیل صاحب اٹھ کر باہر چلے گئے۔ آخری بار اس کمرہ عدالت میں شاید اس وقت گیا تھا جب چیف جسٹس گلزار احمد خان کے بنائے ہوئے بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے جسٹس عمر عطا بندیال انصاف کی کرسی پر براجمان  تھے اور قاضی فائز عیسی کٹہرے میں کھڑے قانونی جنگ لڑ رہے تھے۔

آج سپریم کورٹ میں چیف جسٹس بندیال کی جگہ قاضی فائز عیسیٰ انصاف کی بلند ترین کرسی پر براجمان ہوچکے تھے سو اس تبدیلی کو دیکھنے کے لیے وکلا کی بڑی تعداد کمرہ عدالت میں موجود تھی۔

اتنے عرصے بعد سپریم کورٹ گیا تو ڈائری، پین جلدی میں دفتر میں ہی رہ گئے سو بھاگ کر قانونی کتب کی دکان سے بال پوائنٹ اور ڈائری خریدی اور واپس  پہنچنے پر کرسی خالی پائی تو دل کو کچھ سکون کا احساس ہوا۔

چیف جسٹس کے دونوں جانب ججز کی تعداد برابر تھی

15 رکنی فل کورٹ بینچ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دونوں جانب 7، 7 ججز بیٹھے تھے۔ چیف جسٹس کے دائیں جانب جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس شاہد وحید بیٹھے تھے جبکہ دوسری جانب جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور آخر میں جسٹس مسرت حلالی تشریف فرما تھیں۔

15 رکنی بینچ میں صرف جسٹس اعجاز الاحسن کا ٹیبل لیمپ آن تھا اور وہ وقفے وقفے سے پڑھنے میں مصروف دکھائی دے رہے تھے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کبھی عینک اتار کر روسٹرم پر موجود وکیل صاحب کو دیکھتے تو کبھی ان کے بھیجے گئے نوٹس کو۔

بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور، جسٹس منیب اور جسٹس اطہر من اللہ ہی نے زیادہ سوالات کیے لیکن عمومی طور پر سماعت میں وکیل صاحبان کو کچھ زیادہ کہنے کی زحمت ہی نہیں ہوئی۔

جسٹس عائشہ ملک نے خواجہ طارق رحیم سے سوال کیا کہ اگر فل کورٹ بینچ نے فیصلہ کردیا تو اپیل کا حق دوبارہ نہیں ملے گا جس پر انہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔ اس کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ان سے کہا کہ آپ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی تمام شقیں باری باری پڑھیں تاکہ اس پر بات ہوسکے۔

خواجہ طارق رحیم نے بالآخر اس ایکٹ کی شقیں پڑھنا شروع کیں لیکن پہلے ہی جملے کے بعد وہ 80 کی دہائی میں بننے والے سپریم کورٹ رولز کی تاریخ میں چلے گئے۔ چیف جسٹس نے انہیں یاد دلایا کہ ان پر 57 ہزار مقدمات کا بوجھ ہے اور وہ صرف اس کیس کی وجہ سے انہیں مزید تاخیر کا شکار نہیں کرنا چاہتے اس لیے مدعے پر آئیں۔

جسٹس کا پہلا دن کس پر بھاری تھا؟

ایسا نہیں کہ قاضی فائز عیسیٰ کی عدالت میں بغیر تیاری آنے والوں کو ٹف ٹائم کا سامنا پہلے نہیں رہا مگر آج بطور چیف جسٹس ان کا پہلا دن تھا سو میڈیا سمیت سب کی نظریں سپریم کورٹ کی جانب تھیں۔

خواجہ طارق رحیم روسٹرم پر آئے تو انہیں صرف کمرہ عدالت میں موجود افراد نہیں بلکہ لائیو اسٹریمنگ کے ذریعے ان گنت افراد دیکھ رہے تھے۔ اگر انہوں نے تیاری کی بھی تھی تو شاید وہ اتنے سارے سوالات کے لیے تیار نہیں تھے۔

چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ آپ اپنے کسی ساتھی وکیل سے کہیں کہ وہ ججز کے سوالات نوٹ کرتے رہیں اور بعد میں ان کے جواب دے سکیں۔ خواجہ طارق رحیم نے پہلے تو کچھ سوالوں کے جواب اسی وقت دینے کی کوشش کی لیکن چیف جسٹس کے اصرار پر سوالات کے جواب بعد میں دینے پر راضی ہوئے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے جب خواجہ طارق رحیم سے کہا کے آپ کا مقدمہ یہی ہے کہ چیف جسٹس کے اختیارات پر قدغن پارلیمان نہیں لگا سکتی بلکہ اسے سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس طے کرنے کا مجاز ہے۔ اس پر وہ گڑبڑا گئے اور اپنے اس مقدمے کی تائید کی بجائے مزید وضاحت دینے لگے۔ واضح طور پر انہوں نے کسی بھی سوال کا جواب دینے سے گریز کیا جس سے یہ تاثر گیا کہ شاید ان کی مناسب تیاری نہیں ہے۔

چیف جسٹس بار بار ان سے یہ کہتے رہے کہ آپ اس درخواست کے حق میں اپنی یا ماضی کے مقدمات کے بجائے آئین و قانون سے کوئی مثال پیش کریں تو اس پر انہوں نے کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا۔ چیف جسٹس بظاہر تو کسی بھی وکیل پر برہم نہیں ہوئے البتہ کیمرے کی آنکھ سے دکھائے جانے والے مناظر میں یہ واضح تھا کہ وکلا نے اپنی درخواست کے حق میں مناسب دلائل نہیں دیے۔

’ذاتی خیال اہم نہیں ہے‘

خواجہ طارق رحیم کی جانب سے بار بار ‘میرے خیال سے اور لفظ میں’ کے استعمال پر چیف جسٹس نے کہا کہ براہ کرم آئین و قانون کے حوالے دیں۔ چیف جسٹس بولے، ’یہ کہنا بہت آسان ہے کہ مجھے یہ قانون پسند نہیں یا پھر میری نظر میں کچھ قوانین ٹھیک نہ ہوں لیکن میں نے حلف آئین و قانون کی پاسداری کا اٹھایا ہے اس لیے میری ذاتی پسند اور ناپسند اہم نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ آئین و قانون کیا کہتا ہے اور وقت کی کمی کے باعث اپنی درخواست کے لیے آئینی و قانونی حوالے دیجیے‘۔

سوموٹو کی بات آئی تو چیف جسٹس نے کہا ہم نے ڈھیروں معاملات میں سوموٹو لیا ہے اس لیے اگر ہمارے اتنے ہی حقوق متاثر ہو رہے ہوں تو ہم اس معاملے میں بھی لے لیتے۔ آپ ہمارے وکیل کیسے بن کر ہمارے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں؟

’10 سال تک آپ کی درخواست پر سماعت نہیں کرتا؟‘

چیف جسٹس نے ایک موقع پر کہا کہ ’میرا سوال ہے، اگر آپ نے درخواست دی کہ ارجنٹ معاملہ ہے مگر میں اس درخواست پر بینچ بنا کر اسے سماعت کے لیے نہیں لگاتا اور اگلے 10 برس تک نہیں لگاتا تو بتائیں آپ کیا کرلیں گے؟‘ وہ بولے ’جب میں لامحدود اختیارات نہیں چاہتا تو آپ کیوں دینے پر مصر ہیں؟‘

ریکوڈک کیس کی مثال دیتے ہوئے قاضی فائز عیسیٰ بولے ’اس کیس میں 6 ارب ڈالر کا نقصان سپریم کورٹ کو نہیں بلکہ پورے ملک کو ہوا‘۔

اس کے بعد وکیل امتیاز صدیقی روسٹرم پر آئے تو انہوں نے آتے ساتھ کہا، ’اس مقدمے کا بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا پارلیمان کا یہ اختیار ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے رولز پر اپنے قانون بنائے؟ جس پر چیف جسٹس بولے ’نہیں یہ بنیادی سوال نہیں، بلکہ پہلے تو یہ سوال آتا ہے کہ کیا آپ کی درخواست 184 (3) میں آتی بھی ہے یا نہیں‘۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ نے اسے عدلیہ کی آزادیوں میں اضافہ قرار دیتے ہوئے سوال کیا کہ آپ اس قانون کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟۔

’کمرہ عدالت سے بہتر آواز لائیو اسٹریم پر آرہی تھی‘

خیر سماعت میں وقفے سے قبل ہی سپریم کورٹ کے احاطے سے باہر نکلا تو دیکھا کہ پارکنگ میں موجود کیفے ٹیریا میں مطیع اللہ جان اور وحید مراد چائے پانی کے لیے موجود تھے۔ مطیع اللہ جان بولے کمرہ عدالت میں ٹھیک سے آواز نہیں آرہی تھی البتہ لائیو اسٹریم اور ٹی وی پر آواز بالکل صاف اور بہترین تھی۔

کمرہ عدالت کی کرسیوں میں لگے سپیکرز ویسے تو مناسب کام کرتے ہیں مگر آج شاید بھاری بھرکم پندرہ رکنی بینچ کے اثرات تھے جو بغیر سگنل والے علاقے میں فون کال سننے والی اذیت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔

جسٹس بندیال اب بھی موجود تھے؟

کمرہ عدالت نمبر ایک میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابقہ چیف جسٹسز کی تصاویر دائیں اور بائیں جانب کی دیواروں پر آویزاں ہوتی ہیں۔ 57 ہزار مقدمات کا فیصلہ نہ کرسکنے والی عدالت میں میری دلچسپی اس بات میں تھی کہ کیا جسٹس بندیال کی تصویر بھی اس میں شامل ہوچکی ہے یا نہیں۔ ملک کی اعلیٰ عدالت نے غریب سائلین کے مقدمات نمٹانے میں تو اتنی مستعدی نہیں دکھائی البتہ پچھلے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد ان کی تصویر کمرہ عدالت نمبر ایک میں دیگر سابقین کے ساتھ آویزاں کردی گئی تھی۔

سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے بقول ان کا سورج تو غروب ہوچکا ہے البتہ کمرہ عدالت نمبر ایک میں ان کی تصویر اور ہم خیال ساتھیوں کے ریمارکس ان کی موجودگی کا احساس دلا رہے تھے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وی نیوز کے ساتھ بطور ایڈیٹر پلاننگ منسلک ہیں۔ اس سے قبل بھی مختلف قومی و بین الاقوامی میڈیا کے اداروں کے لیے کام کر چکے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

امن کے لیے دہشتگردی کے بیانیے کو شکست دینا ہوگی، بلاول بھٹو کا دورہ کوئٹہ کے دوران اظہار خیال

جج کی بیٹی کے ہاتھوں قتل ہونے والے شکیل تنولی کے اہل خانہ کا انصاف کا مطالبہ

شعبان سے 2 ہفتے قبل اغوا ہونے والے 7 افراد بازیاب نہ ہوسکے، اغواکاروں کی دی گئی ڈیڈ لائن بھی ختم

حکومت خود گرنا چاہتی ہے، 12 جولائی کو علامتی دھرنا نہیں ہوگا: حافظ نعیم الرحمان

شادی کے وقت یا علحیدگی سے قبل بیوی کو دیے گئے تحائف واپس ہوں گے یا نہیں، عدالت نے فیصلہ سنا دیا

ویڈیو

جج کی بیٹی کے ہاتھوں قتل ہونے والے شکیل تنولی کے اہل خانہ کا انصاف کا مطالبہ

مصنوعی آبشار اور سوئمنگ پول نے مظفر آباد کے باسیوں کو اپنا دیوانہ بنالیا

ایم کیو ایم پاکستان اور پیپلز پارٹی کی نورا کشتی میں کراچی کے عوام کو کیا ملے گا؟

کالم / تجزیہ

4 جولائی: جب نواز شریف نے پاکستان کو ایک تباہ کن جنگ سے بچا لیا

نواز شریف! بولتے کیوں نہیں میرے حق میں؟

شملہ معاہدے کی ‘خفیہ شق’ اور دائروں کا سفر