کیا چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے عمران خان کو انصاف ملے گا؟

منگل 19 ستمبر 2023
author image

عزیز درانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یہ 11 فروری 2021 کا دن ہے، پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے سربراہ جسٹس گلزار احمد ایک حکم صاد فرماتے ہیں کہ ان کی عدالت کے ایک جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو عمران خان سے متعلق کسی بھی مقدمے میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس وقت کے چیف جسٹس نے یہ حکم کیوں دیا تھا؟ اس سوال پر تفصیل سے بات کرنے سے پہلے ذرا یہ جانچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا عمران خان کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے انصاف ملے گا؟

میرے خیال میں آئین و قانون کو مد نظر رکھتے ہوئے جتنا بھی ممکن ہوا عمران خان کو سپریم کورٹ سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں انصاف ملے گا۔ وہ کیوں اور کیسے آئیے ذرا اس پر غور کرلیتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بطور ایک جج کندکٹ کا  اگرجائزہ لیں تو یہ کبھی کسی عدالتی سازشوں کا حصہ نہیں رہے۔ جب کبھی ان کا اپنے برادر ججز سے اختلاف ہوا چاہے وہ بینچ کی تشکیل کا معاملہ ہو، ججز کی تعیناتی کا معاملہ ہو یا کسی اہم مقدمے سے انہیں ہٹائے جانے کا معاملہ ہو، بجائے اس کے کہ محلاتی سازشوں کے ذریعے اپنے ساتھی ججز کے خلاف کوئی محاذ بنائیں، انہوں نے اپنے اختلاف کو آئین و قانون کی روشنی میں ہمیشہ ریکارڈ پر لاتے ہوئے تاریخ کا حصہ بنایا۔

آپ کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ساتھ جوڈیشل کمیشن کی کارروائی پر وہ اختلاف تو یاد ہی ہوگا جس میں انہوں نے ججز کی تعیناتی پر اختلاف کیا اور بعد میں چیف جسٹس صاحب سے خط لکھ کر کمیشن کی کارروائی کی ریکارڈنگ پبلک ریکارڈ کا حصہ بنانے کا مطالبہ کیا۔ نتیجتاً جسٹس عمر عطا بندیال کو ریکارڈنگ پبلک کرنا پڑی۔ اس طرح کے اور کئی واقعات ہیں مثلاً جوڈیشل کمیشن کی میٹنگ نہ بلانے پر ساتھی سینیئر جج جسٹس سردار طارق مسعود کے ساتھ مل کر چیف جسٹس کومیٹنگ بلانے پر خط تحریر کرنا وغیرہ۔ اگر ان کی ذاتی زندگی کو دیکھیں تو دفتر آنے اور جانے کے لیے بجائے اس کے کہ کوئی سرکاری پروٹوکول استعمال کریں وہ اپنی رہائش گاہ سے پیدل عدالت عظمیٰ سفر کرتے ہیں۔ آج تک کسی جج نے رضاکارانہ طور پر اپنے اور اپنے خاندان کے اثاثے پبلک نہیں کیے لیکن قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے تمام اثاثے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پرلگائے تاکہ جو بھی دیکھنا چاہے وہ دیکھ سکتا ہے۔

الغرض جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بطور ایک جج اور بطور چیف جسٹس ایک ایسی legacy  چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں کہ تاریخ ان کو اچھے الفاظ میں یاد رکھے۔ اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ وہ عمران خان کے معاملے میں آئین و قانون سے ماوریٰ کوئی کام کریں گے یا اس معاملے میں اپنی ذاتی رنجش کو بیچ میں لائیں گے۔ اگر کسی مقدمے میں عمران خان کو قانونی طور پر ریلیف ملنا بنتا ہوگا تو وہ ضرور دیں گے اور جس معاملے میں نہیں بنتا ہوگا وہ اس میں نہیں دیں گے۔ اب واپس آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ عمران خان کے مقدمات سننے سے سابق چیف جسٹس نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کیوں روکا تھا۔

ہوا کچھ یوں تھا کہ جسٹس گلزار احمد نےقاضی فائز عیسیٰ کے لیے یہ احکامات جاری کرتے ہوئے جو وجہ بیان فرمائی وہ یہ تھی کہ کیونکہ انہوں نے ذاتی حیثیت میں عمران خان کے خلاف سپریم کورٹ میں پیٹیشن دائر کی تھی اس لیے انصاف کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو عمران خان کے خلاف کسی مقدمے میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔ یہ مقدمہ دراصل عمران خان کا بطور وزیراعظم کچھ اراکین پارلیمنٹ کو ڈویلپمنٹ فنڈ کے نام پر کروڑوں روپے جاری کرنے کے بارے میں تھا جس کی سماعت ابتدائی طور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ایک 2 رکنی بینچ کر رہا تھا لیکن چیف جسٹس نے بینچ تبدیل کرتے ہوئے اس کو ایک 5 رکنی بینچ کے سامنے ٹرانسفر کردیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس حوالے سے چیف جسٹس کو خط بھی لکھا اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی ہائی لائٹ کیا کہ ان کی عمران خان بارے ذاتی حیثیت میں پیٹیشن دائر کرنے کا تاثر درست نہیں۔ وہ پیٹیشن دراصل ان کے خلاف دائر کیے گئے صدارتی ریفرنس کے خلاف تھی جس میں 13 مدعا علیہان تھے بشمول عمران خان بطور وزیراعظم ۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف عمران خان حکومت کے صدارتی ریفرنس کا مکمل احوال تو آپ جانتے ہی ہیں کہ کس طرح ان کو اور ان کی ذوجہ کو عدالتوں، ایف بی آر اور دیگر سرکاری دفاتر کے چکر لگوائے گئے۔ بہرحال اس تمام تر ٹرائل کے باوجود بھی آج وہ پاکستان کے چیف جسٹس بن چکے ہیں۔ حالانکہ اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان نے اس بات کا برملا اعتراف کیا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس ان کی ایک سیاسی غلطی تھی اور ان کو جوڈیشری کے ساتھ اس طرح تصادم نہیں کرنا چاہیے تھا۔

عمران خان کے معاملے کو ایک طرف رکھتے ہوئے ذرا اس بات کا بھی جائزہ اگر لیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس وقت سب سے اہم چیلنجز کیا درپیش ہیں۔ میرے نزدیک اس وقت سب سے برا مسئلہ ان کے لیے عوام کے دل میں عدلیہ کے لیے وہ اعتماد بحال کرانا جو کہ پچھلے کچھ سالوں سے اب ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ اسی طرح اپنے ساتھی ججز کا اعتماد حاصل کرنا، عدلیہ کا کھویا ہوا وقار واپس لانا کیونکہ پچھلے کچھ عرصے سے عدالتی فیصلوں پر عملردآمد ایک مذاق بن چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جسطرح سابق چیف جسٹسز نے اپنی من مانیوں سے کچھ ججز کو بالکل نظر انداز اور کچھ ہم خیال ججز کو ہر اہم مقدمے میں بنچ کا حصہ بنایا ہوا تھا اس روش کو ختم کرکے بینچ کی تشکیل کا ایک مناسب نطام متعارف کرنا اور سب سے اہم سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدموں سے عوام بہت متاثر ہوئی ہے امید ہے قاضی صاحب اب عوام کو سستے اور فوری انصاف کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp