امریکی ڈالر کی قدر 290 روپے سے نیچے نہیں آرہی لیکن پاکستان کی مارکیٹ میں ڈالر کے ایسے نوٹ بھی ہیں جن کی قیمت قدرے کم ہے لیکن پھر بھی اکثر کرنسی ڈیلرز ایسے نوٹ خریدنے کو تیار نہیں ہوتے۔
پشاور کے چوک یادگار میں کرنسی کے کاروبار سے وابستہ ڈیلر رحیم خان نے وی نیوز کو بتایا کہ ڈالر کی خریدو فروخت کے حوالے سے ڈیلر بھی کافی احتیاط برتتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈالر کے اوپر معمولی لکھائی یا کوئی داغ دھبہ ہو تو اس کی قیمت کم ہو جاتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مارکیٹ میں 2 قسم کے ڈالر نوٹ گردش کر رہے ہیں جن کی قیمت بھی الگ الگ ہے اور انہیں مارکیٹ میں عمومی طور پر ہلکے رنگ یا سفید ڈالر اور گہرے یا بلیک ڈالر کہا جاتا ہے۔
پاکستان کی کرنسی مارکیٹ میں پرانے ڈالرز کی قدر
سیکریٹری جنرل ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن پاکستان ظفر پراچہ نے بتایا کہ ڈالر کے پرانے نوٹ کی قیمت فریش نوٹ کی نسبت کم ہوتی ہے جنہیں زیادہ تر ڈیلرز لینے کو تیار نہیں ہوتے۔
ظفر پراچہ نے کہا کہ امریکا میں تمام ڈیزائن کے نوٹس کی قدر ایک ہے اور کوئی ایشو نہیں ہے لیکن پاکستانی مارکیٹ میں پرانے نوٹس کی مانگ کم ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس کی قیمت بھی کم ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پرانے نوٹس کی کوئی خاص قیمت مقرر نہیں لیکن ڈیلر اسے گرا کر خریدتے ہیں کیوں کہ انہیں یہ خدشہ رہتا ہے کہ اسے کوئی نہیں خریدے گا۔
مزید پڑھیں
ظفر پراچہ نے بتایا کہ مختلف مارکیٹس میں ایسے نوٹوں کے ریٹ بھی مختلف ہوتے ہیں کہیں یہ فریش نوٹ کی نسبت 5 روپے کم ہے تو کہیں 10 روپے اب یہ خریدنے والے یا ڈیلر کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ اس کا کیا ریٹ لگاتا ہے وگرنہ نوٹ میں کوئی ایشو نہیں ہوتا۔
رحیم خان کے مطابق پشاور میں پرانے یا بلیک ڈالر کی قیمت 20 روپے تک کم ہے اور بہت کم ہی ڈیلر اسے خریدتے ہیں جس کی بڑی وجہ اس کی ڈیمانڈ کا نہ ہونا ہے۔
کریک ڈاؤن سے ڈالر ریٹ پر کوئی خاص فرق نہیں پڑا
ظفر پراچہ کے مطابق ڈالر سمیت اسمگلنگ کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن جاری ہے لیکن اب تک اس کا ڈالر ریٹ پر کوئی خاظر اثر نہیں پڑا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کریک ڈاؤن کے باوجود بھی لوگ ڈالر فروخت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ‘ماضی کو دیکھ کر سب کو لگ رہا ہے کہ ڈالر کی قدر میں خاطر خواہ کمی کا امکان کم ہے جس کی وجہ سے جن کے پاس ڈالرز ہیں وہ اسے ابھی فروخت کرنے پر تیار نہیں‘۔
ظفر پراچہ ڈالر نے اسمگلنگ کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کو سراہتے ہوئے کہا کہ صرف کریک ڈاؤن سے ہی تمام مسائل کو ختم نہیں کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کے لیے پالیسی بھی بنانی ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایرانی تیل سمیت دیگر اشیا کی اسمگلنگ کے خلاف مزید سختی ہو نی چاہیے اور مؤثر پالیسی بناکر ان کا تسلسل بھی ضروری ہے۔
کسی بڑی رقم کے بغیر ڈالر کی قدر میں کمی مشکل ہے
ظفر پراچہ کا خیال ہے کہ موجودہ حالات میں ڈالر کی قدر میں کمی مشکل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو کوئی بڑی رقم مل جائے تب کہیں جاکر ڈالر کی قیمت میں کمی ممکن ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حالات پر قابو کرنے کے لیے پڑوسی ممالک افغانستان اور ایران سے بارٹر ٹریڈ کو اپنانا ہو گا اور اس کے فروغ کے لیے مؤثر پالیسی بھی بنانی ہوگی۔