مرتضیٰ بھٹو کا قتل کیوں ہوا، کیا وہ اپنی بہن کو قتل کرنا چاہتے تھے؟

بدھ 20 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جب وقت کی وزیر اعظم کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کو قتل کیا گیا تھا تو اس وقت اس مقدمے کے علاوہ مقتول اور ان کے ساتھیوں کے خلاف بھی ایک مقدمہ  درج ہوا تھا لیکن دلچسپ و حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ان دونوں مقدمات میں مرتضیٰ بھٹو سمیت تمام ملزمان بری ہو گئے تھے۔

میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی ایف آئی آر میں سابق صدر آصف علی زرداری کا نام بھی شامل کیا گیا تھا لیکن بعد میں اسے نکال دیا گیا۔ ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ میر مرتضیٰ بھٹو کے اس قتل کیس کے حوالے سے اپیل میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومت کے خاتمے کے بعد پھر سے وکالت نامے جمع کردیے گیے۔

وی نیوز نے میر مرتضیٰ بھٹو کی برسی کے حوالے سے میر مرتضیٰ بھٹو اور اس کیس سے جڑی شخصیات سے اس حوالے سے رابطہ کرنے کی کوشش کی کہ تاکہ کچھ معلومات دستیاب ہو سکیں لیکن اس کیس کا فیصلہ کرنے والے جج نے بات کرنے سے انکار کیا تو کچھ سابقہ پولیس افسران بھی بات کرنے پر تیار نہیں ہوئے ایسے میں اس وقت کے 2 متحرک صحافیوں کی جانب سے معلومات میسر ہوئیں جو اس تحریر کا حصہ ہیں۔

انویسٹیگیٹو صحافت سے 38 سال سے وابستہ مبشر فاروق میر مرتضیٰ بھٹو کیس کے حوالے سے اپنا تجربہ وی نیوز کو بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کیس کی وہ معلومات جو تفتیش کی فائلوں میں بھی نہیں ان کے پاس موجود ہے۔

مبشر فاروق نے میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے حوالے سے بتایا کہ اس کیس سے منسلک قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے آصف علی زرداری سے براہ راست احکامات نہیں لیتے تھے۔ میر مرتضیٰ کا قتل طے شدہ تھا اس قتل میں استعمال ہونے والے مہرے بہت ٹیکنیکل طریقے سے استعمال کیے گئے۔ جس شخص کو یہ ٹارگٹ سونپا گیا اس کا نام کبھی سامنے نہیں آیا لیکن جو لوگ حراست میں لیے گئے وہ انتظامی عہدوں پر فائض تھے۔ جیسے ڈاکٹر شعیب سڈل نظر بند رہے، واجد درانی کو حراست میں لیا گیا جو اس وقت ایس ایس پی تو تھے لیکن قتل سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا اس کے احکامات براہ راست نصیر اللہ بابر سے ملے تھے۔

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ جن افسران سے انہیں معلومات ملا کرتی تھیں وہ یہ کہتے تھے کہ انہیں مرتضیٰ کو بل سے نکالنا ہے اور اس کا چہرہ بے نقاب کرنا ہے۔

قتل کی وجہ کیا بنی؟

مبشر فاروق نے بتایا کہ میر مرتضیٰ بھٹو کو قتل کرنے کی سب سے بڑی وجہ ان کا ملیٹنٹ آرگنائزیشن الذوالفقار بنانا تھا، الذولفقار کوئی چھوٹی تنظیم نہیں تھی اسے لیبیا کے سربراہ کرنل قذافی کی حمایت حاصل تھی۔ اس تنظیم کو اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کی سپورٹ بھی حاصل تھی جس کے سبب بھارت میں ٹرننگ کیمپ کھولے گئے اور یہ پہلی پاکستانی تنظیم تھی جس کے لیبیا میں بھی تربیتی مراکز قائم کیے گئے۔ اس تنظیم کی ابتدائی تربیت بھارت جبکہ اوپر درجے کی تربیت لیبیا میں کرائی جاتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ میری ملاقاتیں ان لوگوں سے رہی ہیں اور بعض انچارج تو آج بھی کراچی میں پائے جاتے ہیں۔ جب بھی کسی ریاست کے خلاف کوئی مسلح کارروائی کا ارادہ رکھے اسے ریاست کبھی نہیں چھوڑتی یہ طے شدہ بات ہے۔

اگر میر مرتضیٰ کو قتل نہ کیا جاتا تو وہ ملک کے وزیر اعظم ہوتے

مبشر فاروق نے بتایا کہ اس قتل کے ماسٹر مائنڈ نے وقت کا انتخاب ایسا کیا کہ بہن کی حکومت میں سگے بھائی کا قتل ہو جاتا ہے اور ایک اور دلچسب بات یہ ہے کہ اگر انہیں قتل نہ کیا جاتا تو آئندہ عام انتخابات میں وہ ملک کے وزیر اعظم ہوتے۔ میر مرتضیٰ نے اس حوالے سے پوری لابنگ کر لی تھی پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت ان کے ساتھ خفیہ طور پر معاملات طے کر چکی تھی۔

بے نظیر بھٹو کا پتا کاٹا جا چکا تھا لیکن انہیں لاعلم رکھا گیا

مبشر فاروق بتاتے ہیں کہ میر مرتضیٰ بھٹو بینظر بھٹو شہید کا پتا کاٹ چکے تھے لیکن انہیں ایجینسیوں کی جانب سے اس وقت لاعلم رکھا گیا اور بے نظیر بھٹو کو صرف یہ بتایا گیا تھا کہ آپ کا قتل ہونے والا ہے اور قتل کرنے والا شخص میر مرتضیٰ کے رابطے میں ہے اور بے نظیر کا گارڈ رہ چکا ہے۔ جب یہ بات سامنے آئی تو اس وقت کے جنرل نصیر اللہ بابر نے یہ فیصلہ کیا کہ اس معاملے سے پولیس کو دور رکھا جائے لیکن بے نظیر بھٹو کا یہ ماننا تھا کہ مرتضیٰ کے خلاف کوئی کارروائی ان کی رہائش گاہ 70 کلفٹن میں نہ ہو۔

فون کی گھنٹی بجتی ہے اور انسپکٹر ذیشان ریسیور تھما کر کہتے ہیں کہ یہ آپ کے لیے ہے، صحافی مبشر فاروق سے جنرل نصیر اللہ بابر مخاطب تھے اور معاملہ اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو قتل کی سپاری لینے والے کا سراغ لگانا تھا اور یہ بات ہے سنہ 1995 کی اور انٹیلیجنس معلومات کے مطابق اس بندے کا تعلق اسی علاقے سے جہاں میری مضبوط گرفت تھی۔ نصیر اللہ بابر مخاطب ہوئے اور کہا کہ میں آپ کو ایک ایسے قومی راز کے حوالے سے اعتماد میں لینا چاہتا ہوں جس میں بہت سے افسران کو بھی اعتماد میں نہیں لیا جارہا انہوں نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان کی پرائم منسٹر کو قتل سے بچانا ہے تو آپ کو ہماری مدد کرنی ہوگی اور ایک شخص کے بارے میں معلومات نکالنے کا کہا جس کے بارے میں یہ کہا جا رہا تھا کہ وہ بے نظیر کو قتل کرنے والا ہے۔

صحافی کے مطابق اس کال کے بعد وہ اپنے کام میں لگ گئے لیکن پتا چلا کہ وہ شخص میر مرتضیٰ کے گھر 70 کلفٹن میں ملے گا یہ معلومات میں نے آگے پہنچائیں جس کے بعد اس آپریشن کے لیے کراچی کے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا گیا جو ایجنسیوں کے لیے ایسی کارروائیاں کیا کرتا تھا۔

بے نظیر کے قتل کے لیے سپاری لینے والا علی سونارا

علی سونارا کی گرفتاری کے لیے ٹیم بنائی گئی اس ٹیم کو انسپکٹر ذیشان کاظمی اور انسپکٹر حسین احمد ناصر لودھی کمانڈ کر رہے تھے جبکہ ایس ایس پی انسپکٹر تنویر الحق نے اس ریڈ کو دفتر سے مانیٹر کیا۔

مبشر فاروق کہتے ہیں کہ مجھے ایک کال پر بتایا گیا کہ ایک تاریخی ریڈ کرنے جا رہے ہیں مکمل ہونے کی صورت میں آپ تفصیلی خبر شائع کر لیجیے گا۔ آپریشن کے بعد علی سونارا کچھ بتا نہیں رہا تھا کیوں کہ اس کی ٹریننگ بہت سخت ہوئی تھی اس موقع پر ایک بار پھر مجھ سے نصیر اللہ بابر رابطہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جتنا جلدی ہوسکے ہمیں اس شخص سے خبر نکال کر دو کیوں کہ یہ وزیر اعظم کی زندگی کا سوال ہے یہ وہ وقت ہے جب میں 2 دن سے سویا نہیں ہوں میرے ساتھ جمیل صاحب ہوتے تھے جو پولیس اور رینجرز کے لیے کام کرتے تھے۔

پولیس افسران کو مرتضیٰ بھٹو نے مرغا بنایا

اس دوران اطلاع ملی کہ میر مرتضیٰ بھٹو نے سی آئی ڈی گارڈن پر ریڈ کیا پولیس افسران کو مرغا بنایا، قیدیوں کو وہاں سے چھڑا دیا اور مشین گن قبضے میں لے لی جس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ مرتضیٰ بھٹو اب اشتعال میں آچکے ہیں۔

میر مرتضیٰ بھٹو وہی تو کررہے ہیں جو ہم چاہتے ہیں، شعیب سڈل

اس واقعے کے بعد صحافی بتاتے ہیں کہ میں  شعیب سڈل کے پاس گیا اور پوچھا کہ کوئی شخص پارلیمانی ممبر ہو اور وزیر اعظم کا بھائی ہو تو کیا اسے ریاستی اداروں کے خلاف اس طرح کی کارروائیاں کرنے کا حق حاصل ہے؟ اس بات پر شعیب سڈل نے زوردار قہقہے کے بعد جواب دیا تو کیا ہوا میر مرتضیٰ وہی تو کر رہا ہے جو ہم چاہتے ہیں۔  میں نے سوال کیا کہ آپ کیا چاہتے ہیں، جس پر شعیب سڈل نے بتایا کہ ہر شخص کی ایک کمزوری ہوتی ہے اور میر مرتضیٰ کی کمزوری ہے اس کا غصہ اور جب وہ غصے میں ہوگا تو اپنا نقصان خود کرے گا۔

قانون ہاتھ میں لینے پر میر مرتضیٰ کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟

مبشر فاروق مزید بتاتے  ہیں کہ بظاہر میر مرتضیٰ کے اس طرح کے واقعات پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کوئی کارروائی نہیں کی لیکن پس پردہ ان کے خلاف فائل بنتی رہی۔

جس دن میر مرتضیٰ بھٹو قتل ہوئے

مبشر فاروق کے مطابق میر مرتضیٰ کے پولیس کے اندر انفارمرز بہت تھے اور انہی انفارمرز سے ملنے والی معلومات پر وہ تھانوں پر حملہ کرتا تھا ہم اپنی تحقیق کے لیے ملیر کے ایک تھانے میں تھے وہاں سے ہم نیو کراچی تھانے گئے جہاں کے ایس ایچ او بہار الدین بابر تھے اس دوران سرجانی میں مرتضیٰ کی ہریس کانفرنس تھی اور انسپکٹر ذیشان کاظمی نے کچھ پرائیویٹ اور کچھ ہولیس اہلکاروں کو جمع کیا اور تھانہ نیو کراچی سے روانہ ہوئے جبکہ مجھے کہا گیا کہ آپ اپنی رپورٹ مکمل کریں تاکہ نصیر اللہ بابر صاحب کو بھیج سکیں۔

مبشر فاروق مزید بتاتے ہیں کہ 2 یا شاید ڈھائی گھنٹے بعد جو ٹیم تھانے سے گئی تھی وہ واپس آگئی اور تھانے کے گیٹ بند کروادیے گئے سویلیئنز کو تھانے سے نکالا گیا شور شرابہ ہونے کی وجہ سے میں باہر نکلا اور ذیشان سے پوچھا کیا ہوا تو جواب ملا کہ بس بات نہ کرو سیکیوریٹی سخت کردی ہے۔ اس کے بعد ہم ایس ایچ او کے کمرے میں گئے جہاں روزنامچہ منگوایا گیا اور انسپکٹر ذیشان اس روزنامچے سے 3 صفحے پھاڑ دیے اور محرر سے مخاطب ہوا اور کہا کہ یہ والی انٹریاں اب بعد میں کرنا پہلے یہ انٹری کرو کہ میں بغرض تفتیش نیو کرچی تھانے میں موجود ہوں باہر کہیں نہیں گیا۔

اس انٹری کے بعد جو انٹریاں پھاڑی گئیں وہ بھی ڈالنے کے بعد جب ذیشان سے دریافت کیا کہ ہوا کیا ہے تو اس نے پرائیوٹ روم میں لا کر بتایا کہ مرتضیٰ مر گیا ہے۔ میں نے ذیشان سے کہا کہ تم نے مار دیا مرتضیٰ کو تو اس کا کہنا تھا کہ بعد میں سب بتا دوں گا ابھی اس علی سونارا سے اگلواتے ہیں اب یہ سب مان لے گا۔

میر مرتضیٰ بھٹو مر نہیں سکتا وہ تو ہمارا خدا ہے

علی سونارا کو دوران تفتیش جب بتایا گیا کہ میر مرتضیٰ بھٹو مر چکا ہے تو اس نے ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ مر نہیں سکتا وہ تو ہمارا خدا ہے انسپکٹر ذیشان نے اپنا سر پیٹ لیا اور کہا کہ پی ٹی وی لگاؤ جب پی ٹی وی لگایا گیا تو وہاں میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی خبریں چل رہی تھیں وہ دیکھ  کر علی سونارا ہنسنے لگا اور بولا کہ یہ تو تم لوگوں نے خود سے بنائی ہے اس پر میں کیوں یقین کروں، مرتضیٰ نہیں مر سکتا۔

جب ایک سنگین کیس کے ملزم کے لیے تھانے میں ڈش اینٹینا لگایا گیا

ایک طرف اسلام آباد سے علی سونارا کے بیان کا انتظار تھا تو دوسری جانب مرتضیٰ کی موت پر یقین دلانے کا چیلنچ جس کے بعد صحافی کہتے ہیں کہ  ڈش اینٹینا کا بندوبست کیا اور سی این این لگایا گیا جس پر وزیر اعظم کے بھائی اور سابق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کے بیٹے کے قتل کی خبر نشر ہو رہی تھی۔ یہ دیکھنے کے بعد ملزم علی سونارا نے زور دار چیخ لگائی اور اپنے سینے سے اتنی زور سے ہاتھ مارے کہ پورا کمرہ گونج اٹھا اور وہ ڈھارے مار مار کر 20 منٹ تک روتا رہا اور جب آنسو خشک ہوئے تو اسپکٹر ذیشان سے مخاطب ہو کر کہا کہ صاحب جب میرا باپ مر گیا تو اب کچھ چھپانے کی ضرورت نہیں جو پوچھو گے بتاؤں گا۔

میر مرتضیٰ کے خلاف بیان، بہت کچھ چھپا دیا گیا

مبشر فاروق کے مطابق علی سونارا کا جب بیان شروع ہوا تو اسے لکھتے لکھتے ہاتھ کانپ بھی رہے تھے اور تھک بھی گئے تھے کیوں کہ اس بیان میں سنسنی خیز انکشافات تھے اور ہولناک باتوں سے بھرپور یہ بیان تھا۔ اس بیان کے بارے میں مبشر فاروق کہتے ہیں کہ اس میں بتایا گیا کہ پیپلز پارٹی کے وہ کون لوگ تھے جو بے نظیر کا تختہ الٹنا چاہتے تھے۔ کون کون کس کس قتل میں ملوث رہا انگنت کہانیوں کا پردہ فاش ہوا اور اس بیان سے بہت سی چیزیں پولیس نے حذف بھی کیں۔ پولیس کا یہ موقف تھا کہ بہت سی چیزیں پیپلز پارٹی یا حکومت کے خلاف چلی جائیں گی اس لیے انہیں افیشل ریکارڈ پر نہ آنے دیاجائے۔

کیا آصف علی زرداری کی ایماء پر میر مرتضیٰ کے خلاف آپریشن ہوا؟

مبشر فاروق نے بتایا کہ انسپکٹر ذیشان جو اس کیس کے اہم رکن تھے مفرور ہوگئے تھے اور ان سے جب ملاقات ہوئی تھی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ نصیراللہ بابر کا آرڈر تھا اور آصف علی زرداری کی اجازت سے یہ سب ہوا تھا اور پولیس کو استعمال کیا گیا۔

میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل آپریشن کے ماسٹر مائنڈ ملک سے باہر جبکہ باقی قتل کردیے گئے

مبشر فاروق مزید بتاتے ہیں کہ اس آپریشن کی ٹیکنیک یہ تھی کہ جن لوگوں کو استعمال کیا جائے گا انہیں پھر رکھا نہیں جائے گا انتظامی ڈیوٹی کے علاوہ سب پولیس اہلکاروں کو راستے سے ہٹا دیا گیا تھا جو اس کیس کے ماسٹر مائنڈ تھے ان کے میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل والے دن ایڈوانس میں لندن کی ٹکٹ بک کرائی جا چکی تھی۔ اس قتل کے ماسٹر مائنڈ سے میری ملاقات شعیب سڈل نے کرائی اور کہا کہ میں انہیں خود ایئر پورٹ چھوڑنے جا رہا ہوں اور یہ پھر کبھی زندگی میں نظر نہیں آئیں گے۔

اس طرح ماسٹر مائنڈز اس قتل کے لندن بھیج دیے گئے جبکہ جو ملک میں تھے وہ قتل کردیے گئے کوئی نہیں بچا۔

کیا واقعی بے نظیر کی جان کو مرتضیٰ بھٹو سے خطرہ تھا؟

اس حوالے سے مبشر فاروق کہتے ہیں کہ مرتضیٰ اوربے نظیر دونوں ایک دوسرے کو مارنا نہیں چاہتے تھے، مرتضیٰ بھٹو کی پلاننگ یہ تھی کہ آئندہ انتخابات میں منتخب ہو کر پیپلز پارٹی کے لوگوں کو آپنے ساتھ ملاکر حکومت بنائی جائے گی یوں بے نظیر خود بخود ایک طرف ہو جاتیں لیکن بے نظیر کے قتل کے حوالے سے جو افواہ سامنے آئی وہ بھی پلان کا حصہ تھا تا کہ اپنا ہدف حاصل کیا جا سکے۔

26 سال کورٹ رپورٹننگ کرنے والے کراچی کے صحافی لیاقت علی رانا جو اس وقت دنیا نیوز سے وابستہ ہیں ذوالفقار علی بھٹو کیس کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ میر مرتضیٰ بھٹو کا قتل کراچی میں پونے والے بڑے سانحات میں سے ایک تھا۔ میر مرتضیٰ کو 70 کلفٹن ان کے گھر کے باہر گولیوں کا نشانہ بنایا گیا وہ زخمی ہوئے خون نکلتا رہا دیر تک اور پھر ایک اسپتال لے جایا گیا جہاں علاج کی سہولت نہیں تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کی وزیر اعظم کو فون کر کے بتایا گیا کہ ان کے بھائی کو قتل کردیا گیا ہے۔ اس واقعے کی 2 اف آئی آرز درج ہوئی ایک پولیس کی مدعیت میں اور دوسری ایف آئی آر میر مرتضیٰ کے ملازم کی مدعیت میں کٹی اور باقاعدہ پولیس افسران کو نامزد کیا گیا اور بتایا گیا کہ ان افسران کی موجودگی میں فائرنگ ہوئی۔

میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی پہلی ایف آئی آر میں آصف علی زرداری کا نام

لیاقت علی رانا کے مطابق پہلی ایف آئی آر میں پولیس افسران کے ساتھ ساتھ آصف علی زرداری کا نام بھی ڈالا گیا تھا لیکن بعد میں ان کا نام نکال دیا گیا۔ ناقص تفتیش کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ پولیس اہلکار اپنے پیٹی بند افسران کو بچانے میں لگے رہے۔

سست روی کا شکار اس کیس کے لیے پھر ٹریبیونل بنایا گیا جس کی روش سماعت ہونا شروع ہوئی محترمہ بے نظیر بھٹو صبح سوا 8 بجے عدالت پہنچ جایا کرتی تھیں اور سارا دن پروسیڈنگ سنتی تھیں ان کا بیان بھی قلمبند ہوا، محترمہ بے نظیر بھٹو کو یہ جملے بھی سننے کو ملے کہ ان کے شوہر نے اپنے سالے کو قتل کروایا۔ سنہ 2010 میں ایڈیشنل ڈسٹرک اینڈ سیشن جج شرقی نے ان دونوں مقدمات کا فیصلہ سنایا اور المیہ یہ ہے کہ دونوں مقدمات میں میر مرتضیٰ ان کے ساتھی اور دوسری جانب نامزد پولیس افسران سب بری کردیے گئے۔ جب سب بے گناہ تھے تو قاتل کہاں گئے؟

لیاقت علی رانا کے مطابق بے نظیر بھٹو غمزدہ تھیں ان کے واحد بھائی تھے جنہیں انہی کے دور حکومت میں قتل کردیا گیا لیکن وہ بار بار اس خواہش کا اظہار کیا کرتی تھیں کہ کسی بھی طرح میر مرتضیٰ بھٹو کے قاتلوں کو بے نقاب کیا جائے لیکن وہ اپنے جیتے جی اپنے بھائی کے قاتلوں کا سراغ نہ لگا سکیں اور اپنے جیتے جی انہوں نے اس کیس کا فیصلہ بھی سنا۔ نہ صرف یہ بلکہ ان افسران کی پروموشنز کو بھی ہوتے دیکھا۔ اس کیس میں نامزد ایس ایچ او کلفٹن نے خودکشی کرلی تھی لیکن اس کی تحقیقات بھی نہ ہو سکیں۔

کیا آصف علی زرداری کی مونچھ میر مرتضیٰ بھٹو نے مونڈھی تھی؟

لیاقت علی رانا نے ایک سوال پر کہا کہ جب آصف علی زرداری جیل میں تھے تو ان سے ہماری ملاقاتیں ہوتی رہیں ہم ان سے بہت سے سوالات کیا کرتے تھے یہاں تک کہ ان سے یہ تک پوچھا کہ آپ مونچھ میر مرتضیٰ نے مونڈھی تھی اور یہ بھی کہا کہ وہ آپ کو پسند نہیں کرتے کیوں کہ کہا جاتا ہے کہ میر مرتضیٰ آصف زرداری کو کالا شہزادہ یا بلیک پرنس کہ کر بلاتے تھے تو ان باتوں کا وہ کچھ خاص جواب تو نہیں دیتے تھے لیکن اتنا ضرور کہتے تھے کہ یہ ایک سازش کی گئی تاکہ ایک بہن کی حکومت کو ختم کیا جا سکے۔ ایک بہن کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے میر مرتضیٰ اور ان کے ساتھیوں کو قتل کیا گیا میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ کہتے تھے کہ مجھے زبردستی جوڑا گیا اس کیس سے کہ میری ایماء پر ہوا، آصف علی زرداری کہتے تھے کہ میں کئی دفعہ میر مرتضیٰ سے ملا ہوں اختلافات ضرور تھے بہن بھائی میں بھی تھے لیکن آصف علی زرداری نے کبھی اس موضوع پر کھل کر بات نہیں کی۔

میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کیس کے فیصلے کے خلاف اپیل سست روی کا شکار کیوں؟

لیاقت علی رانا کہتے ہیں کہ اپیل میں عدم دلچسپی کی وجہ آصف علی زرداری ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جب غنویٰ بھٹو سے یہ سوال کیا گیا کہ سنہ 2010 میں میر مرتضیٰ بھٹو قتل کیس کے فیصلے کے خلاف اپیل فائل ہوتی ہے لیکن پیروی کیوں نہیں کی جاتی تو ان کا کہنا تھا کہ جب تک آصف علی زرداری ہے اس اپیل کو چلانے کا کوئی فائدہ نہیں۔

خیر اب پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ میں نہیں ہے اور اپیل میں وکالت نامے جمع ہو چکے ہیں اور اس کی باقاعدہ سماعت بھی شروع ہورہی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp