لاہور ہائیکورٹ: چیف جسٹس نے صحافی عمران ریاض کو 26 ستمبر تک پیش کرنے کا حکم دیدیا

بدھ 20 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

لاہور ہائیکورٹ نے صحافی عمران ریاض کی بازیابی کے لیے آئی جی پنجاب کو 26 ستمبر تک مہلت دے دی اور ہدایت کی ہے کہ یہ آخری مہلت ہے، عمران ریاض کو پیش نہ کیا تو حکم جاری کریں گے۔

تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں صحافی عمران ریاض کی بازیابی کے لیے درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ امیر بھٹی نے کیس کی سماعت کی۔

آئی جی پنجاب، ایڈیشنل آئی جی، ڈی آئی جی سمیت دیگر افسران عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے آٸی جی سے استفسار کیا کہ عمران ریاض کدھر ہے؟ ہمارے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہوچکا ہے، یہ عدالتی حکم کی توہین ہے۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ اُن کے موکل کا صبر بھی جواب دے چکا ہے۔ اگر مہلت دینا ہے تو صرف 24 گھنٹے کی دیں، جس پر آئی جی پولیس پنجاب نے استدعا کی کہ انہیں کم از کم اتنا وقت دیا جائے کہ عدالتی حکم کی تعمیل ہوجائے۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ آئی جی صاحب 5 ماہ ہو گئے ہیں، اب تک بہت وقت دیا گیا ہے تو آئی جی پولیس پنجاب نے بتایا کہ ورکنگ گروپ سے درخواست گزار کی ملاقات کرائی ہے۔

عدالت نے آٸی جی پنجاب کی استدعا پر عمران ریاض کی بازیابی کے لیے 26 ستمبر تک مہلت دیتے ہوئے کہا یہ آپ کو عمران ریاض کی بازیابی کے لیے آخری مہلت ہے۔ آپ نےعمران ریاض کو پیش نہ کیا تو حکم جاری کریں گے۔

عمران ریاض کب سے لاپتہ ہیں؟

سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری کے خلاف 9 مئی کو ہونے والے پرتشدد احتجاج کے بعد یوٹیوبر عمران خان ریاض کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ انھیں تھانہ کینٹ اور پھر سیالکوٹ جیل میں لے جایا گیا۔ بعدازاں جیل انتظامیہ نے 15 مئی کے روز عدالت کو بتایا کہ عمران ریاض کو تحریری حلف نامہ لینے کے بعد رہا کردیا گیا۔ تاہم اس کے بعد یوٹیوبر صحافی لاپتہ ہوگئے۔

بعد ازاں عمران ریاض کے والد محمد ریاض نے 16 مئی کو سیالکوٹ سول لائنز پولیس میں اپنے بیٹے کے مبینہ اغوا کی ایف آئی آر درج کرائی۔

ایف آئی آر میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 365 کے تحت ’نامعلوم افراد‘ اور پولیس اہلکاروں کوعمران ریاض کے اغوا کا ذمہ دار نامزد کیا گیا۔

دوسری طرف صحافی کے والد نے بیٹے کی بازیابی کے لیے لاہور ہائیکورٹ میں بھی درخواست دائر کی تھی۔ اور لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے پولیس کو 22 مئی تک اینکر پرسن کو بازیاب کر کے پیش کرنے کا حکم دیا۔

بائیس مئی کو آئی جی پنجاب نے موقف اختیار کیا کہ ملک بھر کے کسی محکمہ پولیس میں صحافی کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ اس پر لاہور ہائیکورٹ نے وزارت داخلہ اور دفاع کو ہدایت کی کہ وہ اینکر پرسن کی بازیابی کے لیے اپنے آئینی فرائض ادا کریں۔ بعد ازاں انٹر سروسز انٹیلی جنس اور ملٹری انٹیلی جنس دونوں نے لاہور ہائیکورٹ میں جواب داخل کرایا کہ اینکر پرسن ان کی تحویل میں نہیں ہے۔

26 مئی کو لاہور ہائیکورٹ نے تمام ایجنسیوں کو ہدایت کی کہ وہ عمران ریاض کو تلاش کرنے اور 30 مئی تک عدالت میں پیش کرنے کے لیے مل کر کام کریں۔ بعد ازاں آئی جی پنجاب نے لاہور ہائیکورٹ کو بتایا تھا کہ جو فون نمبر افغانستان سے ٹریس کیے گئے تھے وہ اس کیس میں ملوث ہیں۔

6 جون کو ہونے والی سماعت کے دوران صحافی کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے جبکہ پنجاب حکومت نے ہائیکورٹ کو بتایا کہ صحافی کی تلاش کی کوششیں جاری ہیں۔

5 جولائی کو لاہور ہائیکورٹ نے سماعت کے دوران لاپتا صحافی کی بازیابی کے لیے 25 جولائی کا وقت دیا تھا، تاہم عدالتی بینچ کی غیرحاضری کی وجہ سے مقررہ تاریخ پر سماعت نہ ہوئی۔

بعدازاں وزارت دفاع کی طرف سے ریٹائرڈ بریگیڈیئر فلک ناز نے عدالت کو بتایا تھا کہ وہ مقامات اور دیگر مسائل کا سراغ لگانے پر کام کر رہے ہیں، وہ عمران ریاض کو جلد از جلد بازیاب کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے بعد عمران ریاض کے وکیل میاں اشفاق علی نے بھی عدالت کو آگاہ کیا کہ تمام ادارے عمران ریاض کی تلاش کے لیے کام کر رہے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ وہ جلد بازیاب ہو جائیں گے۔

6 ستمبر کو ہونے والی سماعت میں آئی جی پنجاب نے لاہور ہائیکورٹ کو آگاہ کیا کہ عمران ریاض کی بازیابی کے لیے کافی مثبت پیش رفت ہوئی ہے، وہ آنے والے 10 سے 15 روز میں خوشخبری دیں گے، عدالت انہیں مہلت فراہم کرے۔ اس پرعدالت نے آئی جی پنجاب کو 13 ستمبر تک کی مہلت دی۔ بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت 20 ستمبرتک ملتوی کر دی تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp