نگراں وزیراعظم پاکستان انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنا ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔ پاکستان 2030 تک توانائی کی 60 فیصد ضرورت متبادل توانائی کے ذرائع سے حاصل کرے گا جس پر 100 ارب ڈالر کی لاگت آئے گی اور ہمیں اس کے لیے عالمی مدد کی ضرورت ہے۔
نیویارک میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نگراں وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان نے مستقبل میں ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے دریائے سندھ کے منصوبے اور ارلی وارننگ نظام سے متعلق منصوبہ بندی سمیت دیگر اقدامات کیے ہیں، 2030 تک پاکستان 60 فیصد متبادل توانائی کے ذرائع استعمال کرے گا، گلوبل وارمنگ کے خلاف ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
مزید پڑھیں
وزیراعظم نے کہاکہ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، گزشتہ سال سیلاب کی وجہ سے ہر طرف تباہی آئی، مشکل کی اس صورت حال میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے پاکستان سے بھرپور یکجہتی کا مظاہرہ کیا جس پر ان کے شکرگزار ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ’کلائمیٹ ریزیلیئنس‘ کے لیے ’نیشنل ایڈاپٹیشن‘ منصوبے پر عملدرآمد شروع کیا ہے، اس منصوبے کے تحت مستقبل میں سیلاب اور قدرتی آفات کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے نشاندہی کردہ منصوبوں میں تمام وسائل بھرپور انداز میں بروئے کار لائے جائیں گے، دوسرے مرحلے میں سرمایہ کاری کی فراہمی کا فریم ورک وضع کیا جائے گا جس سے مخصوص نشاندہی شدہ شعبوں میں ضروریات کی فراہمی میں مدد ملے گی۔
عالمی حدت روکنے کے لیے بین الاقوامی کوششوں کا حصہ ہیں
وزیراعظم نے کہاکہ 2025 انیشیٹو کے تحت دریائے سندھ کے حوالے سے منصوبے کا آغاز کیا ہے، نیشنل ایڈاپٹیشن منصوبے کے تحت ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ ہماری اولین ترجیح ہے، پاکستان کی ارلی وارننگ صلاحیت میں اضافہ کے لیے اقدامات کیے ہیں، عالمی حدت میں پاکستان کا حصہ بہت کم ہے تاہم سب سے ز یادہ متاثر ہونے والوں میں شامل ہے، عالمی حدت روکنے کے لیے عالمی کوششوں کا حصہ ہیں۔
انہوں نے ماحولیات کے تحفظ کے حوالے سے قرآن پاک کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ اسلام ماحول کے تحفظ کی ذمہ داری کو فروغ دینے کی حمایت کرتا ہے۔
انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ قدرتی وسائل کو بھرپور اندازمیں بروئے کار لانا چاہیے، مستقبل کے خطرات سے نمٹنے کے بارے میں قابل عمل سوچ اختیار کرنی چاہیے، موسمیاتی اہداف کے حصول کے لیے ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو مالیاتی اور تکنیکی تعاون کے ذریعے موسمیاتی انصاف ملنا چاہیے۔