اقوام متحدہ جنرل اسمبلی:عالمی رہنماؤں کی وہ تقاریر جو لوگوں کی توجہ کا مرکز بنیں

جمعرات 21 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اقوام متحدہ کا قیام 24اکتوبر 1945ء کو عمل میں آیا اور اگلے ہی برس اس کی جنرل اسمبلی  کا پہلا اجلاس منعقد کیا گیا۔ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو اس وقت سے ملکوں کے سربراہان اور سفیروں کو اپنا پیغام دنیا بھر میں پہنچانے کا موقع فراہم کررہا ہے۔ امریکی شہر نیویارک میں قائم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ یہاں دشمن ممالک کے سربراہان اور نمائندے ایک چھت تلے موجود ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی تقاریر کو غور سے سنتے ہیں۔

جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس ان دنوں نیویارک میں جاری ہے۔ عالمی منظرنامے پر نظر داڑائیں تو جنرل اسمبلی میں اس بار بھی کئی رہنماؤں کی جانب سے دھواں دار تقریروں، خوشگوار لمحات اور مضحکہ خیز صورتحال کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ماضی میں بھی کئی بار ایسے مواقع آئے جب عالمی رہنماؤں نے اپنی تقریریں، معنی خیز جملے اور حرکتیں دنیا بھر کے لوگوں کی توجہ مرکز بنیں۔ الجزیرہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی 78 سالہ تاریخ سے چند ناقابل فراموش واقعات اور تقاریر کا احوال بیان کیا ہے جو آپ کے پیش خدمت ہے۔

معمر قذافی 100 منٹ تک عالمی طاقتوں پر برستے رہے

 

چار دہائیوں سے زیادہ اقتدار میں رہنے والے لیبیا کے حکمران معمر قذافی نے 2009 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے پہلی اور آخری بار خطاب کیا۔ انہوں نے عالمی طاقتوں کے خلاف تہلکہ خیز تقریر کی جو تقریباً 100 منٹ تک جاری رہی۔ اپنی تقریر میں معمر قذافی نے پانچ ملکوں کی ویٹو پاور کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ویٹو پاور ختم کر دینی چاہیے، سلامتی کونسل نے ہمیں تحفظ کے بجائے خوف اور پابندیاں دیں۔

معمر قذافی نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے کچھ حصے پڑھتے ہوئے عالمی ادارے کی خامیوں کو نشاندہی کی  کہا کہ یہ ادارہ اپنے قوانین کے اطلاق میں ناکام ہوا ہے۔ قذافی نے 2003ء میں عراق پر امریکی سربراہی میں ہونے والے حملے کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ جارحیت کے خلاف اقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعات کو اس وقت مقدس کیوں تصور کیا گیا جب عراق نے 1990ء میں کویت پر حملہ کیا اور جب عراق پر حملہ ہوا تو اسے ’کوڑے کے ڈبے میں پھیک دیا گیا‘۔

انہوں نے کہا کہ عراق پر حملہ بلا جواز اور چارٹر کے خلاف تھا جو کہ سلامتی کونسل میں موجود عالمی طاقتوں کی جانب سے کیا گیا، عراق ایک آزاد اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا رکن ہے اور کیا وجہ ہے کہ عراق پر حملہ ہوتا ہے اور اس معاملے پر چارٹر کا اطلاق نہیں کیا جاتا؟

معمر قذافی کی یہ تقریر اپنی اہمیت کے علاوہ طوالت کے باعث بھی مشہور ہے کیونکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں رہنماؤں کو خطاب کے لیے 15 منٹ کا وقت دیا جاتا ہے۔

جب ہوگو شاویز نے جارج ڈبلیو بش کو ’شیطان‘ کہا

2006ء میں جب وینزویلا اور امریکا کے درمیان کشیدگی کافی حد تک بڑھ چکی تھی، عین اس وقت اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے وینزویلا کے صدر ہوگو شاویز نے اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کو ’شیطان‘ کے لقب سے پکارا۔

ہوگو شاویز نے اپنی تقریر میں کہا، ’ کل شیطان یہاں آیا تھا، یہیں پر، اوراس جگہ سے آج بھی گندھک کی بو آ رہی ہے‘۔

وہ جارج بش کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کرتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا کی پشت پناہی سے اسرائیل نے لبنان میں ایک ہزار سے زائد افراد کو قتل کیا اور کئی عمارتیں تباہ کر دیں، امریکہ کی حکومت امن نہیں چاہتی بلکہ یہ جنگ کے ذریعے اپنے استحصال، لوٹ مار، بالادستی کے نظام سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔

ہوگو شاویز نے کہا، ’امریکا امن چاہتا ہے لیکن عراق میں کیا ہو رہا ہے؟ لبنان میں کیا ہوا؟ فلسطین میں؟ آخر ہو کیا رہا ہے؟ لاطینی امریکہ اور دنیا میں پچھلے 100 سالوں میں کیا ہوا ہے؟ اور اب وینزویلا اور ایران کو دھمکی دی جا رہی ہے؟

ہوگو شاویز نے چند سال بعد بتایا تھا کہ ’شیطان‘ سے متعلق جملہ ان کی تقریر میں شامل نہیں تھا لیکن اس روز انہوں نے وہاں گندھک کی بو سونگھی تھی۔

ٹرمپ نے شمالی کوریا کو ’مکمل طور پر تباہ‘ کرنے کی دھمکی دی

عموماً جنرل اسمبلی کے اجلاس میں رہنما عالمی تعاون اور مشترکہ مسائل کے حل سے متعلق اپنے خدشات اور آراء بیان کرتے ہیں، لیکن 19 ستمبر 2017 کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی 72 ویں جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گویا اپنے لفظوں سے ہی دنیا کو ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔

تقریر کے دوران انہوں نے کہا، ’امریکا کے پاس بہت طاقت اور صبر ہے، لیکن اگر امریکا اپنے یا اپنے اتحادیوں کے دفاع پر مجبور ہوا تو اس کے پاس شمالی کوریا کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ راکٹ مین (کم جونگ ان) اپنے لیے اور اپنی حکومت کے لیے خودکش مشن پر ہے، امریکہ اس کے لیے تیار اور رضامند ہے اور اس کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن امید ہے کہ اس کی ضرورت نہیں پڑے گی‘۔

ٹرمپ کو یہ تقریر کیے ہوئے ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ انہوں نے سنگاپور میں ہونے والے ایک اجلاس میں شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ سے ملاقات کر ڈالی۔ اس وقت ٹرمپ نے اپنا لہجہ نرم رکھا لیکن اس ملاقات کے بعد دونوں ممالک کے سربراہان کے درمیان کوئی ملاقات نہ ہوسکی۔

نیتن یاہو نے ایران کے ایٹمی پروگرام پر سرخ لکیر کھینچ دی

2012ء میں اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو جنرل اسمبلی سے تقریر کے لیے اسٹیج پر آئے تو ساتھ میں ایک چارٹ پر بنا بم کا خاکہ بھی ساتھ لے آئے۔ نیتن یاہو دنیا کو خبردار کرنے آئے تھے کہ ایران چند ماہ میں جوہری ہتھیار بنا لے گا۔

اپنی تقریر کے دوران انہوں نے سامنے موجود عالمی رہنماؤں سے سوال کیا کہ ایک بم کے لیے آپ کو کتنی یورینیم درکار ہوتی ہے، اور پھر خود ہی جواب دیا، ’میں آپ کو بتاتا ہوں، میں آپ کے لیے ایک خاکہ لے کر آیا ہوں‘۔

ایٹمی سائنس کی پیچیدگیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نیتن یاہو نے ایک ’گول کارٹون بم‘ کو ایٹمی بم کے طور پر عالمی رہنماؤں کے سامنے پیش کیا اور دعویٰ کیا ایران کے پاس جوہری ہتھیار بنانے کے لیے افزودہ یورینیم کا 70 فیصد حاصل کر لیا ہے اور اب وہ اگلے مرحلے کی جانب گامزن ہے جس کے لیے افزودہ یورینیم 90 فیصد درکار ہوتی ہے۔

اگر یہ حقائق ہیں، اور یہ واقعی ہیں، تو سرخ لکیر کہاں کھینچی جائے؟ یہاں ایک سرخ لکیر کھینچی جانی چاہیے‘ نیتن یاہو نے 90 فیصد کے نشان پر سرخ لکیر کھینچتے ہوئے کہا۔

اسرائیلی وزیر اعظم 2015ء میں ہونے والے ایران جوہری معاہدے کے سب سے بڑے ناقد کے طور پر سامنے آئے تھے۔

بورس جانسن نے مصنوعی ذہانت کے خطرات سے خبردار کیا

برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے 2019ء کے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دنیا کو مصنوعی ذہانت کے ممکنہ خطرات سے خبردار کیا۔

جانسن نے اپنی تقریر میں ایک تصوراتی مستقبل کی کچھ عجیب و غریب تصاویر پیش کیں جہاں ٹیکنالوجی کی ترقی رک جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں بنا ٹانگوں یا پروں کے خوفناک دکھنے والی مرغیاں اور اسی طرح کی مخلوقات پیدا ہونے لگتی ہیں۔

بورس جانسن نے ایمازون کے مصنوعی ذہانت سے بنے وائس اسسٹنٹ (الیکسا) کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ’مستقبل کا الیکسا آرڈر لینے کا بہانہ کرے گا لیکن یہ الیکسا آپ کی نگرانی کرے گا۔

بورس جانسن نے سوال کیا کہ کیا مصنوعی ذہانت بوڑھے لوگوں کی مدد کے لیے روبوٹ تیار کرے گی یا نسل انسانی کو ختم کرنے کے لیے ’ٹرمینیٹر‘ کا روپ دھار لے گی۔

“مصنوعی حیاتیات کا کیا مطلب ہوگا؟ ہمارے جگر اور ہماری آنکھوں کو ٹشوز کی معجزانہ تخلیق نو کے ساتھ بحال کرنا، کیا یہ ایک لاجواب علاج ہوگا یا یہ ایسا ہوگا جو اعضاء کے بغیر خوفناک مرغیوں کو ہماری کھانے کی میز پر لے آئے گا‘؟

اس وقت ان کی تقریر کا بھلے مذاق اڑایا گیا لیکن ھال ہی میں ہم نے مصنوعی ذہانت کے ذریعے ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیشرفت کو دیکھا ہے اور اب لوگ اس کے اصولوں اور افادیت کے بارے میں سوالات اٹھا رہے ہیں اور دنیا بھر کے قانون سازوں کو اس کے قواعد و ضوابط پر غور کرنے کی ترغیب دے رہے ہے۔

فیڈل کاسترو کا ساڑھے 4 گھنٹے کا خطاب

کیوبا کے رہنما فیڈل کاسترو نے 1960ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ساڑھے 4 گھنٹے تک خطاب کیا تھا۔ کیوبا میں انقلاب کے ایک سال بعد کاسترو جنہیں امریکا میں عوام کا دشمن نمبر ایک کہا جاتا تھا، نے عالمی عدم مساوات پر ایک طویل تقریر کی۔

انہوں نے اپنی تقریر میں کہا، ’کیوبا کے عوام کی قومی جنرل اسمبلی ’بڑے پیمانے پر زمینداری‘ کی کسانوں کے لیے غربت کا ذریعہ اور زرعی پیداوار کے پسماندہ اور غیر انسانی نظام کے طور پر مذمت کرتی ہے۔ یہ اسمبلی فاقہ کشی پر مجبور کرنے والی اجرت اور مراعات یافتہ طبقے کی جانب سے محنت کشوں کے استحصال کی مذمت کرتی ہے۔ یہ اسمبلی براعظم امریکا کے ممالک میں ناخواندگی، اساتذہ کی کمی، اسکولوں، ڈاکٹروں اور اسپتالوں کی کمی کی مذمت کرتی ہے‘۔

انہوں نے خواتین کے استحصال کی مذمت کی اور کہا کہ فوجی اشرافیہ ہمارے لوگوں کو غربت میں رکھتی ہے اور ان کی جمہوری ترقی اور ان کی خودمختاری کو روکتی ہے۔

اقوام متحدہ کے ریکارڈ کے مطابق وہ 269 منٹ تک لاگاتار تقریر کرتے رہے۔ ان کی اس تقریر کے ایک سال بعدامریکا نے حملہ کر کے کاسترو کا تختہ الٹنے کی کوشش کی لیکن وہ اس کوشش میں ناکام رہا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp