ہمارے تربور افغانوں کا ہم پر ہنسنا بنتا ہے

جمعرات 21 ستمبر 2023
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وہ جسے پنجابی میں شریک کہتے ہیں، اسے پشتو میں تربور کہتے ہیں۔ تربور چچا زاد کو کہتے ہیں۔ جو ہر وقت مدِمقابل رہتا ہے۔ تب تک مخالفت کرتا ہے، جب تک کوئی باہر والا آکر نہ لڑ پڑے۔ پھر ساتھ ہوکر لڑتا ہے۔ لڑائی ختم بھی نہیں ہوتی کہ کچھ نہ کچھ پرانا یاد کرکے ناراض ہوکر یہ جا وہ جا اور جاتے جاتے دو چار الٹی سیدھی سنا بھی جاتا ہے۔ تربور اپنے کزن کا کچھ اچھا دیکھ کر بالکل خوش نہیں ہوتا۔ دل لگا کر کوشش کرتا ہے کہ لہو گرم رکھنے کو کچھ الٹا ہو ہی جائے تاکہ دل خوش ہو۔

تربور کی تھوڑی سی مزید تشریح سن لیں۔ نامور پشتو ادیب کا قصہ ہے۔ ان کی ٹانگوں میں درد تھا، وہ اپنے ملازم کو آوازیں دے رہے تھے کہ وہ آئے اور ٹانگیں دبا دے۔ پاس ہی تربور (کزن) بیٹھا تھا۔ اس نے کہا لالا آپ بڑے ہیں آپ کے پیر میں دباتا ہوں۔ اس کو بھیجیں میری نسوار لے کر آئے۔ ملازم گیا تو بھائی نے ٹانگ دبانی شروع کی، بہت دل لگا کر ٹانگ دبائی۔ جیسے ہی اسے کہا کہ اب اسے بس کر اور دوسری دبا۔ اٹھ کر سائیڈ پر بیٹھ گیا۔ اب لالا اسے پوچھیں کہ بھئی دباتا کیوں نہیں؟ تو خان نے جواب دیا اس لیے تاکہ آپ بے سکون اور بے چین ہوں۔

انڈیا میں جی20 کانفرنس ہونی تھی۔ ہم پاکستانی ویسے ہی سڑے بیٹھے تھے۔ ہم پیچھے رہ گئے انڈیا آگے نکل گیا۔ یومِ دفاع کے دن افغانستان میں کئی سو کلومیٹر طویل سفر کرکے، ٹی ٹی پی کے عسکریت پسند چترال پر حملہ آور ہوگئے۔ طورخم بارڈر پر فائرنگ ہوئی جس کے بعد بارڈر کراسنگ بند کردی گئی۔

پاکستان میں اس وقت ساری بھاگ دوڑ جنرل عاصم منیر کے ذمے ہے۔ ملک میں نگران حکومت ہے مگر فیصلوں کے لیے آرمی چیف کی جانب ہی سب کو دیکھنا پڑتا ہے۔ اب ایسے وقت میں ان کی اپنی ڈومین یعنی سیکیورٹی میں ہی ان کو چیلنج کردیا جائے۔

ہم 2 مختلف باتوں کو نہیں جوڑتے لیکن ویسے ہی سوچتے ہیں کہ پاکستان میں کرنسی ڈیلروں کے خلاف آپریشن شروع ہوگیا۔ افغانستان جانے والی کھاد، چینی پکڑی جانے لگی۔ افغانستان میں افغانی کا ریٹ گرنے لگ گیا۔ پاکستان میں ڈالر نے فوری لیٹنے والی کی، 8، 8 اور 10، 10 روپے کی چھلانگیں مارتا نیچے آیا۔

امیر خان متقی مذاکرات اور جوڑ توڑ کے لیے افغان طالبان حلقوں میں ماسٹر پلانر مانے جاتے ہیں۔ متقی جب اپنی حکومت کا مؤقف بیان کرتے ہیں تو بہت سخت اور سیدھا بیان دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ اندر کھاتے یہ سارے ہارڈ لائنر کو سمجھاتے رہتے ہیں۔ ملا ہبت اللہ کو لڑکیوں کی تعلیم پر آمادہ کرنے کی کوشش اتنی بار کی کہ ان کی چھیڑ ہی بن گئی۔

پاکستان کا بڑا اعتراض تھا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ گروپوں کی تعداد میں عسکریت پسند سیکڑوں کلومیٹر اور کئی دن پر محیط سفر کریں اور افغان حکومت کو پتہ تک نہ لگے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ آپ کی مرضی سے ہوا یا آپ چاہتے تھے کہ ایسا ہو۔ پاکستانی اعتراضات کا اثر ہوا۔

افغان میڈیا نے پاک افغان بارڈر پر 100 نئی چوکیوں کے قیام کی خبر دی ہے۔ افغان وزیرِ دفاع ملا یعقوب کے حکم پر یہ چیک پوسٹیں قائم کی گئی ہیں۔ چیک پوسٹ پاکستان سے ملحقہ ننگرہار، کنہڑ اور نورستان صوبوں میں قائم کی گئی ہیں۔

اب سیکیورٹی چیک پوسٹ کے قیام سے افغان طالبان کی جانب سے ایک اعتراض کو ختم اور کم کردیا گیا ہے۔ ایک نظام موجود ہے جس کے ذریعے عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت پر کنٹرول کرنا اور نظر رکھنا ممکن ہوگا۔

2011 ایسا سال تھا جب پاکستان سے افغانستان کو 2 ارب 60 کروڑ ڈالر سے زائد کی ایکسپورٹ کی گئیں۔ کم ہوتے ہوتے یہ 2023 میں 50 کروڑ ڈالر تک گر گئی ہیں۔ پاکستان افغانستان ایک دوسرے کی شو شا خراب کرنے کی بہترین صلاحیت رکھتے ہیں۔ اپنے اپنے شوق میں اپنا حال بے حال دونوں ملکوں نے کر رکھا ہے۔ جتنا دل چاہتا تھا اس سے زیادہ خوار ہوکر بیٹھے ہیں۔ اک ذرا سا امن جو مستقل رہے۔ دونوں ملکوں کی قسمت کو بہت تیزی سے بدل سکتا ہے۔ رہ گئی تربور ولی یا شریکے بازی تو وہ کرکٹ میچوں میں پوری کرلیں۔

ویسے ایک دل جلانے والے بات یہ دیکھیں کہ افغانستان سونا بھی ایکسپورٹ کر رہا ہے۔ 2021 میں کُل برآمدات کا 21 فیصد سے زیادہ صرف سونے کی ایکسپورٹ سے حاصل ہوا۔ 2021 میں 41 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کا سونا ایکسپورٹ کیا اور 2022 میں 50 کروڑ ڈالر سے زیادہ۔

ہم بھی افتخار چوہدری کی سپریم کورٹ کو شاباش دے سکتے ہیں۔ ساڑھ 6 ارب ڈالر میں ہمیں سونے تانبے کی کان کا ازخود نوٹس پڑا ہے۔ اس پر قاضی فائز عیسی نے ٹھیک کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ نہ دیں آئین کی بات کریں۔ اب لکھ تو دیا ہے ہمارے تربور ہنس رہے ہوں گے۔ وہ سونے سے کما رہے ہیں اور ہم جرمانے بھر رہے ہیں۔ ان کا ہم پر ہنسنا بنتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp