مشرق وسطیٰ کو ایک خوشحال خطے میں تبدیل کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کریں گے، سعودی ولی عہد

جمعرات 21 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا کہنا ہے کہ اگر ایران کے جوہری ہتھیار حاصل کرتا ہے تو سعودی عرب کو بھی سیکیورٹی وجوہات اور طاقت کے توازن کے پیش نظر اس کی ضرورت ہوگی۔

امریکی ٹی وی چینل فوکس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں شہزادہ محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ اگر مشرق وسطیٰ کو ایک خوشحال خطے میں تبدیل کرنے کا موقع ملتا ہے تو سعودی عرب ضروری اقدامات کرنے سے دریغ نہیں کرے گا۔

’ہم چاہتے ہیں کہ امریکی اور غیر ملکی کمپنیاں آئیں اور مشرق وسطیٰ میں محفوظ ماحول میں سرمایہ کاری کریں۔ اب ہم یمن میں جنگ بندی کی طویل ترین مدت دیکھ رہے ہیں۔‘

سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے چین کا انتخاب نہیں کیا بلکہ ثالثی کی پیشکش چین کی جانب سے کی گئی۔ انہوں نے سعودی فٹبال کلب کی ٹیموں کی ایرانی اسٹیڈیم میں متوقع میچز کو خوش آئند قرار دیا۔

’ہم عراق، ایران اور خطے کو مسلسل ترقی کرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ جب خطہ بدامنی سے دوچار ہوتا ہے تو مسلح گروہ اور دہشت گرد سرگرم ہو جاتے ہیں، یقیناً ہم ایسا نہیں چاہتے۔۔۔ ہم یمن کے مسئلے کے حوالے سے تمام محاذوں پر کام کر رہے ہیں اور اس کی معیشت کی بحالی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

شہزادہ محمد بن سلمان کے مطابق اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی تجویز امریکی انتظامیہ نے پیش کی تھی۔انہوں نے  مسئلہ فلسطین کی اہمیت تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ اسے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے عمل میں حل ہونا چاہیے۔ ’ہم فلسطینیوں کی بہتر زندگی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‘

شہزادہ محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب ’ون چائنا‘ پالیسی پر یقین رکھتا ہے اور امریکہ بھی ایسا ہی کرتا ہے۔ چینی صدر اپنے ملک کی خدمت اور اس کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں۔ کوئی بھی چین کو کمزور نہیں دیکھنا چاہتا۔ اگر چین عدم استحکام سے دوچار ہوتا ہے تو امریکہ سمیت دنیا کے تمام ممالک اسی خطرے سے دوچار ہوں گے۔

امریکا سے تعلقات کی بابت شہزادہ محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے امریکا سے اہم سیکیورٹی تعلقات ہیں اور وہ امریکی ہتھیاروں کے 5 بڑے خریداروں میں سے ایک ہے۔ ’صدر بائیڈن کے ساتھ ہمارے تعلقات مضبوط ہیں اور ہم بہت سی مشترکہ فائلوں پر مل کر کام کرتے ہیں۔‘

سعودی ولی عہد نے امریکی صدر جو بائیڈن کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہت توجہ مرکوز رکھتے ہیں اور اجلاس میں اچھی تیاری سے شریک ہوتے ہیں۔ ’امریکی انتظامیہ میں ہر تبدیلی کے ساتھ ساتھ ہم گفت وشنید جاری رکھتے ہوئے مثبت عمل کے مواقع تلاش کرتے ہیں۔‘

سعودی ولی عہد کے مطابق ایک راہداری جو ہندوستان، مشرق وسطیٰ اور یورپ کو باہم منسلک کرے وہ نہ صرف وقت اور پیسے کی بچت بلکہ یورپ کا فاصلہ  6 سے 3 دن تک کم کردے گا۔ انہوں نے بتایا کہ روس اور یوکرین کے ساتھ ان کی مملکت کے تعلقات اچھے ہیں اور وہ جنگ کے خاتمے کے لیے بات چیت کو ترجیح دیتے ہیں۔

سعودی عرب کی ترقی کے حوالے ے شہزادہ محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ مملکت کا مطمع نظر بہت اچھا ہے اور ہم اپنے اہداف کو حیران کن حد تک جلد حاصل کررہے ہیں۔ ’گزشتہ برس ہم سب سے تیزی سے ترقی کرنے والے جی 20 میں شامل رکن ملک تھے۔ تیل سے ہٹ کر اس سال ہماری شرح نمو جی 20 گروپ میں سب سے تیز ترین ہوگی۔‘

سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ ماضی میں مسائل کا شکار ہونے کے باعث سعودی عرب نے دستیاب موقعوں سے فائدہ نہیں اٹھایا تاہم اب مملکت کی ترقی کے لیے سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔ ’سعودی عرب ترقی کی رفتار کے لحاظ سے ہندوستان سے مقابلہ کرتا ہے۔ مملکت ترقی، ترقی اور ایک خوشحال معیشت کی تشکیل کی خواہشمند ہے۔‘

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا موقف تھا کہ برکس کوئی سیاسی اتحاد یا امریکا مخالف گروپ نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ واشنگٹن کے اتحادی ممالک اس میں شامل ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ اوپیک پلس میں سعودی عرب تیل کی طلب اور رسد کی نگرانی کرتے ہوئے توانائی کی مارکیٹ میں استحکام کے لیے کوشاں ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp