نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے احکامات پر غیر قانونی طور پر اسمگل کیے جانے والے ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کی اسمگلنگ اور خرید و فروخت پر رواں ماہ پابندی کے بعد ملک بھر میں اس غیرقانونی کاروبار سے وابستہ عناصر کیخلاف کارروائی کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
نگراں بلوچستان حکومت کی جانب سے ایرانی پیٹرول کی اسمگلنگ اور خرید و فروخت کے خلاف موثر کارروائی کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ صوبائی وزیر اطلاعات جان اچکزئی کے مطابق کوئٹہ سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کے 500 سے زائد پمپس کو بند کر دیا گیا ہے۔
لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ بات کی جائے اگر بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کی تو بروری روڈ، سریاب روڈ ،جوائنٹ روڈ، اسپنی روڈ، سرکہ روڈ، جان محمد روڈ، فقیر محمد روڈ اور نواح کلی کے علاقوں میں سینکڑوں پیٹرول پمپس کھلے عام ایرانی اسمگل شدہ پیٹرول اور ڈیزل فرخت کر رہے ہیں۔
ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کے پمپ اسٹیشن کے مالک محمد علی نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایک ہفتے قبل ایرانی پیٹرول کی خرید و فروخت کے خلاف سختی کی گئی اور اس دوران کئی پمپس کو بھی بند کیا گیا لیکن اب دربارہ سے کوئٹہ میں ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کی خرید و فروخت کا سلسلہ جاری ہے۔
مزید پڑھیں
محمد علی کے مطابق کوئٹہ میں ان دنوں ایرانی پیٹرول 275 روپے جبکہ ایرانی ڈیزل 290 روپے میں فروخت کیا جارہا ہے۔ ایرانی پمپ کے مالکان ہزار گنجی کے علاقے سے ایرانی پیٹرول کو بڑے گیلن میں بھر کر دکانوں تک پہنچا رہے ہیں اور بآسانی فروخت بھی کر رہے ہیں۔
محمد علی نے بتایا کہ حکومت ہر بار ایرانی پیٹرول کے خلاف کریک ڈاؤن کا سلسلہ شروع کرتی ہے لیکن یہ کریک ڈاؤن چند دنوں پر ہی مشتمل ہوتا ہے۔ ’کریک ڈاؤن کے دوران ہم دکانوں کو بند کر دیتے ہیں اور جیسے کی ذرا نرمی ہوتی ہے انہیں دوبارہ کھول لیتے ہیں۔
وی نیوز سے گفتگو میں کوئٹہ کے شہری مزمل احمد نے بتایا کہ ایرانی پیٹرول کے خلاف کریک ڈاؤن سمجھ سے بالاتر تھا۔ ایرانی پیٹرول پاکستانی پیٹرول سے 30 سے 40 روپے سستا پڑتا ہے۔ تاہم حکومت اگر پاکستانی پیٹرول کی قیمتوں کو منا سب کردے تو عوام پاکستانی پیٹرول کا استعمال شروع کر دیں گے۔
نگران حکومت بلوچستان کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کے کاروبار کا حجم 60 ارب روپے سے زائد مالیت کا ہے، جس سے ملکی معیشت کو بھاری پیمانے پر نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔