عالمی امن کے قیام کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ہونا ضروری ہے، نگراں وزیر اعظم کا جنرل اسمبلی سے خطاب

جمعہ 22 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ دنیا میں بڑھتے ہوئے سیکیورٹی چیلنجز پیچیدگی کا شکار ہیں، ہمیں مشترکہ خطرات اور چیلنجز کا سامنا ہے، ان میں سرحدی تجارت، فوجی تنازعات، دہشت گردی، موسمیاتی تبدیلی، عدم تحفظ خوراک، مہاجرین کی تعداد میں اضافہ، غریب و نادار اور امیروں کے درمیان بڑھتی ہوئی معاشی تفریق عالمی امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔

نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کے دوران تنازع کشمیر، موسمیاتی تبدیلی، اسلامو فوبیا اور پاکستان کی اقتصادی بحالی کے منصوبے خصوصاً خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل ( ایس آئی ایف سی ) کے تحت اٹھائے جانے والے اقدامات سمیت مختلف علاقائی وعالمی سیکیورٹی چیلنجز کے موضوع پر تقریر کی۔

جغرافیائی معاشیات کو فوقیت ملنی چاہیے

خطاب کے آغاز میں وزیر اعظم نے روس یوکرین جنگ اور دیگر عالمی طاقتوں کے درمیان تناؤ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عالمی رہنما تاریخ کے ایک کشیدہ اور اہم لمحے پر اکٹھے ہوئے ہیں۔ ’ہم پرانے اور نئے فوجی اور سیاسی بلاکوں کا عروج دیکھ رہے ہیں ، جغرافیائی سیاست اس وقت دوبارہ ابھر رہی ہے لیکن جغرافیائی معاشیات کو فوقیت ملنی چاہیے۔

انہوں نے یاد دلایا کہ موسمیاتی سربراہ اجلاس کے دوران پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جیز) پر عمل درآمد کے لیے دور رس وعدے کیے گئے تھے اور انہوں نے قرضوں کے بحران میں گھرے 59 ممالک کی ترقی اور قرضوں کے مسائل کے حل کے لیے غیر استعمال شدہ خصوصی ڈرائنگ رائٹس کی ری چیننگ کے ذریعے ان وعدوں کو پورا کرنے پر زور دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں گزشتہ سال موسمیاتی تبدیلی کے باعث تباہ کن سیلاب آیا، ہم دنیا پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے آگاہ ہیں، پاکستان عالمی گرین ہائوس گیسوں میں حصہ ایک فیصد ہے تاہم یہ موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کاربن کے اخراج سے نمٹنے کے لیے  بھرپور کوششیں کر رہا ہے، پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک اکیلے بوجھ نہیں اٹھا سکتے، اجتماعی ردعمل کے لیے موسمیاتی انصاف فراہم کرنا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے  لاس اینڈ ڈیمج فنڈ قائم کیا گیا جس کا مقصد موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کو مدد فراہم کرنا تھا تاہم اپنے مشترکہ مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ٹرپل فوڈ فنانس فیول چیلنج، کرونا وائرس اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے متاثر ہونے والے ترقی پذیر ممالک میں پاکستان اس کی ایک اہم اور بڑی مثال ہے، انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے۔

وزیر اعظم نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال آنے والے سیلاب سے ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب آیا، 1700 افراد جاں بحق ہوئے، 80 لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے، اہم بنیادی ڈھانچہ تباہ ہوااور معیشت کو 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچا۔ انہوں نے کہا کہ ہم بحالی اور تعمیر نو کے لیے پاکستان کے جامع منصوبے کے لیے 10.5 ارب ڈالر سے زیادہ کے عالمی وعدوں کے لیے پرامید ہیں۔

انہوں نے کہا، “فور آر ایف کی بروقت فنڈنگ اور عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے مخصوص منصوبے پیش کیے جا رہے ہیں اور مجھے امید ہے کہ ہمارے ترقیاتی شراکت دار ہمارے ریکوری پلان کے لیے فنڈز مختص کرنے کو ترجیح دیں گے جس پر 13 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔

وزیراعظم نے یقین دلایا کہ حکومت پاکستان تیزی سے معاشی بحالی، زرمبادلہ کے ذخائر اور کرنسی کے استحکام، ملکی محصولات میں اضافے اور اہم ملکی و بیرونی سرمایہ کاری کو متحرک کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

عالمی برادری سے مطالبہ ہے کہ وہ تنازع کشمیر حل کروائے

انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام کو بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط مقبوضہ جموں کشمیر میں بی جے پی حکومت کے اقدامات کے باعث انسانی حقوق کی سنگین صورتحال اور مقبوضہ وادی میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے اقدامات پر گہری تشویش ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں 9 لاکھ فوج لاکر کھڑی کر دی ہے، جس سے خطے میں خطرات نے جنم لیا ہے

 انہوں نے کہا کہ عالمی برادری سے مطالبہ ہے کہ وہ تنازع کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں، ہم جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کے خواہاں نہیں ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان بنیادی تنازع ہی مسئلہ کشمیر ہے، پاکستان کو اس بات پر شدید تشویش لاحق ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہے۔

بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں کشمیر میں بھارت نے 2019 میں یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کئے جس سے خطے کو خطرناک صورتحال کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا ماننا ہے ریجن اتحاد سے ترقی کرتا ہے، اسی لیے پاکستان اپنے تمام ہمسائیوں بشمول بھارت سے پرامن اور سود مند تعلقات کا خواہاں ہے۔

نگران وزیراعظم نے کہا کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی بنیاد ہے، جموں و کشمیر کا تنازع سلامتی کونسل کے پرانے تنازعات میں سے ایک ہے، بھارت نے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد سے گریز کیا ہے، جو کہتی ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کا حتمی فیصلہ وہاں کے لوگ اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کے ذریعے کریں گے۔

خطے مل جل کر ترقی کا عمل آگے بڑھایا جا سکتا ہے

انہوں نے کہا کہ ترقی کا دارومدار امن پر ہے۔ پاکستان دنیا کے سب سے کم معاشی طور پر مربوط خطوں میں سے ایک ہے۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ خطے مل جل کر ترقی کا عمل آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ لہٰذا پاکستان بھارت سمیت اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ پرامن اور نتیجہ خیز تعلقات کا خواہاں ہے۔

کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی کلید ہے

کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی کلید ہے۔ جموں کشمیر کا تنازع سلامتی کونسل کے ایجنڈے کا سب سے پرانا مسئلہ ہے۔ بھارت نے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد سے گریز کیا ہے، جن میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ جموں کشمیر کے حتمی حل کا فیصلہ اس کے عوام اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے کے ذریعے کریں۔

5 اگست 2019 سے بھارت نے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں کشمیر میں 9 لاکھ فوجی تعینات کر رکھے ہیں تاکہ کشمیر کا حتمی حل نکالا جا سکے۔

بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق سلب کر رکھے ہیں

اس مقصد کے لیے بھارت نے لاک ڈاؤن اور کرفیو میں توسیع کی ہے، تمام حقیقی کشمیری رہنماؤں کو جیلوں میں ڈال دیا ہے، پرامن مظاہروں کو پرتشدد طریقے سے دبایا ہے، جعلی مقابلوں اور نام نہاد محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں میں بے گناہ کشمیریوں کا ماورائے عدالت قتل کیا ہے اور پورے گاؤں  کے گاؤں کو تباہ کرنے کے لیے اجتماعی سزائیں نافذ کی ہیں۔

 اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے انسانی حقوق اور ایک درجن سے زیادہ خصوصی نمائندوں کی جانب سے مقبوضہ کشمیر تک رسائی کے مطالبے کو نئی دہلی نے مسترد کیا ہے۔

انہوں کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو کشمیر پر اپنی قرارداد پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا۔ ہندوستان اور پاکستان کے لیے اقوام متحدہ کے فوجی مبصر گروپ کو مضبوط کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی طاقتوں کو نئی دہلی کو اسٹریٹجک اور روایتی ہتھیاروں پر باہمی تحمل کی پاکستان کی پیش کش کو قبول کرنے کے لیے قائل کرنا چاہیے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ ہمارے ترقیاتی شراکت دار ہمارے لچکدار بحالی کے منصوبے کے لئے فنڈز مختص کرنے کو ترجیح دیں گے ، جس پر 13 بلین امریکی ڈالر لاگت آئی ہے۔ جناب صدر، حکومت پاکستان تیزی سے معاشی بحالی کے لئے پرعزم ہے۔

ہم اپنے فنڈز کے زرمبادلہ کے ذخائر اور اپنی کرنسی کو مستحکم کریں گے، گھریلو آمدنی میں توسیع کریں گے اور سب سے اہم، اہم گھریلو اور بیرونی سرمایہ کاری کو متحرک کریں گے. سہولت کونسل، ایس آئی ایف سی سرمایہ کاری کے فیصلوں میں تیزی لائیں۔

پاکستان کے شراکت داروں کے تعاون سے ترجیحی شعبوں، زراعت، کان کنی، توانائی اور آئی ٹی میں 28 منصوبوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی اقتصادیات کی طرف طویل مدتی منتقلی اچھی طرح سے جاری ہے۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری کے دوسرے مرحلے کا آغاز کر دیا گیا ہے

چین پاکستان اقتصادی راہداری کے دوسرے مرحلے کا آغاز کر دیا گیا ہے جس میں ریلوے، بنیادی ڈھانچے اور مینوفیکچرنگ منصوبوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ پاکستان وسطی ایشیا کے ساتھ رابطے کے منصوبوں پر جلد عمل درآمد کا بھی منتظر ہے۔

افغانستان میں امن پاکستان کے لیے حکمت عملی ناگزیر ہے

نگراں وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان افغانستان کے حوالے سے خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے حوالے سے عالمی برادری کی تشویش میں برابر کا شریک ہے۔ اس کے باوجود ہم ایک بے سہارا اور تباہ حال افغانستان کی انسانی امداد جاری رکھنے کی وکالت کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان لڑکیاں اور خواتین سب سے زیادہ خطرے کا شکار ہیں، اس کے ساتھ ساتھ افغان معیشت کی بحالی اور وسط ایشیا کے ساتھ رابطے کے منصوبوں پر عمل درآمد بھی شامل ہے۔ اس وقت پاکستان کی اولین ترجیح افغانستان اور اس کے اندر ہر قسم کی دہشت گردی کی روک تھام اور اس کا مقابلہ کرنا ہے۔

پاکستان ٹی ٹی پی، داعش اور افغانستان سے سرگرم دیگر گروہوں کی جانب سے پاکستان کے خلاف سرحد پار دہشت گرد حملوں کی مذمت کرتا ہے۔ ہم نے ان حملوں کی روک تھام کے لیے کابل کی حمایت اور تعاون مانگا ہے۔

تاہم ہم بیرونی طور پر حوصلہ افزائی کی جانے والی اس دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بھی ضروری اقدامات کر رہے ہیں۔ پاکستان شام اور یمن میں تنازعات کے خاتمے کے لیے پیش رفت کا خیرمقدم کرتا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ خاص طور پر ہم مملکت سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ ایران کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے فلسطین کا المیہ جاری ہے۔

نگراں وزیر اعظم نے فلسطین مسئلے پر پاکستان کے مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فوجی چھاپوں، فضائی حملوں، بستیوں کی توسیع اور فلسطینیوں کی بے دخلی کی روک تھام کے ذریعے ہی پائیدار امن قائم کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن تبھی قائم ہو سکتا ہے جب جون 1967 سے قبل کی سرحدوں کو تسلیم کرتے ہوئے ایک ایسی الگ فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔

اقوام متحدہ کے امن مشن میں پاکستان کا کردار قابل تحسین ہے

وزیر اعظم نے کہا کہ اقوام متحدہ کے امن مشن میں پاکستان کا کردار قابل تحسین رہا ہے۔ 6 دہائیوں سے زیادہ کے عرصے میں پاکستان نے دنیا بھر میں 47 مشنز میں 2 لاکھ 30 ہزار امن فوجی دستے بھیجے جنہوں نے عالمی امن کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ آج اقوام متحدہ کے امن دستوں کو پیچیدہ اور خطرناک چیلنجوں خاص طور پر جرائم پیشہ اور دہشت گرد گروہوں کی طرف سے خطرات کا سامنا ہے۔ ہمیں امن دستوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہوگا۔

پاکستان اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا

وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا تاکہ ضرورت پڑنے پر اقوام متحدہ اور بین الاقوامی افواج کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کے لیے درکار صلاحیتوں اور مزید مضبوط مینڈیٹ کو فروغ دیا جا سکے۔

بلا امتیاز تمام دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہوگا

وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں بلا امتیاز تمام دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہوگا، بشمول انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسند اور فاشسٹ گروہوں جیسے ہندوتوا سے متاثر انتہا پسندوں کی طرف سے بڑھتے ہوئے خطرے، جو ہندوستان کے مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف نسل کشی کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

آزادی کی جدوجہد کو دہشت گردی سے الگ کیا جائے

ہمیں ریاستی دہشت گردی کی بھی مخالفت کرنے کی ضرورت ہے، غربت، ناانصافی اور غیر ملکی قبضے جیسی دہشت گردی کی بنیادی وجوہات سے نمٹنے کی ضرورت ہے، اور حقیقی آزادی کی جدوجہد کو دہشت گردی سے الگ کرنے کی ضرورت ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان نے انسداد دہشت گردی کی عالمی حکمت عملی کے چاروں ستونوں کے متوازن نفاذ کی نگرانی کے لیے جنرل اسمبلی کی ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔  تہذیبوں کے درمیان تعاون، افہام و تفہیم، تبادلے اور خیالات کی ترکیب کی شاندار تاریخ پر مبنی ہماری پیش رفت آج حوصلہ افزا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تہذیب کے ٹکراؤ کی وکالت کرنے والے بیانیوں نے انسانیت کی ترقی کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس طرح کے خیالات نے انتہا پسندی، نفرت اور مذہبی عدم رواداری کو جنم دیا ہے، جس میں اسلاموفوبیا بھی شامل ہے۔

اسلاموفوبیا سے متعلق کوئی غلطی نہ کی جائے یہ ایک پوشیدہ خطرہ ہے

انہوں نے کہا کہ اسلاموفوبیا سے متعلق کوئی غلطی نہ کی جائے، یہ ایک پوشیدہ خطرہ ہے جو ہزاروں کی ترقی کو کمزور کر سکتا ہے۔ ہمیں اپنے تنوع اور زندگی کے مختلف طریقوں کی قدر کرنے اور جشن منانے کی ضرورت ہے۔ باہمی احترام، مذہبی علامتوں، صحیفوں کے تقدس کو یقینی بنایا جائے۔

اسلاموفوبیا نے نائن الیون کے بعد وبائی شکل اختیار کی

اگرچہ اسلامو فوبیا ایک صدیوں پرانا رجحان ہے، تاہم، 9-11 کے دہشت گرد حملوں کے بعد، اس نے ایک وبائی شکل اختیار کرلی ہے، جس کا اظہار مسلمانوں کی منفی پروفائلنگ اور اسلامی مقامات اور عقائد پر حملوں سے ہوتا ہے، جیسے کہ حال ہی میں قرآن پاک کو عوامی طور پر نذر آتش کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال اس اسمبلی نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے پلیٹ فارم سے پاکستان کی جانب سے پیش کردہ ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں 15 مارچ کو اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرنے کا عالمی دن قرار دیا گیا تھا۔

رواں سال کے اوائل میں انسانی حقوق کونسل نے پاکستان کی جانب سے پیش کردہ او آئی سی کی ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں عالمی ممالک پر زور دیا گیا تھا کہ وہ قرآن پاک کو نذر آتش کرنے اور اسی طرح کی اشتعال انگیزیوں کو غیر قانونی قرار دیں۔

ہم ڈنمارک کی جانب سے شروع کی گئی اور اس مقصد کے لیے سویڈن کی جانب سے غور کی جانے والی قانون سازی کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ پاکستان اور او آئی سی ممالک اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے لیے مزید اقدامات تجویز کریں گے جن میں خصوصی ایلچی کی تعیناتی، اسلامو فوبیا ڈیٹا سینٹر کا قیام، متاثرین کو قانونی معاونت اور اسلاموفوبیا کے جرائم کی سزا کے لیے احتساب کا عمل شامل ہے

وزیر اعظم نے کہا کہ آج دنیا کو جن پیچیدہ عالمی اور علاقائی چیلنجوں کا سامنا ہے ان سے اقوام متحدہ کے فریم ورک کے اندر مؤثر کثیرالجہتی نظام کے ذریعے بہترین طریقے سے نمٹا جا سکتا ہے۔ تاہم، عالمی طاقتوں کے مابین اسٹریٹجک رقابت اور تناؤ کی یکطرفہ پالیسیوں کی وجہ سے کثیرالجہتی نظام کے قیام سے گریز کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کثیر الجہتی نظام میں فعال کردار ادا کرتا رہے گا

وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کثیر الجہتی اداروں کو مضبوط بنانے اور عالمی تعاون بڑھانے کے لیے فعال طور پر کام کرتا رہے گا۔ پاکستان مستقبل کے سربراہ اجلاس اور مستقبل کے معاہدے کے دائرہ کار اور عناصر پر بات چیت جاری رکھنے کا بھی خواہاں ہے، جو سابقہ مشاورت میں ابھرنے والی ہم آہنگی کی بنیاد پر ہے۔

پاکستان عالمی مساوات اور خود مختاری کے احترام کا قائل ہے

وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان ایلیٹازم پر یقین نہیں رکھتا۔ اقوام عالم کے ساتھ ساتھ عالمی امن اور خوشحالی کے مفاد میں مساوات اور خودمختاری کے اقوام متحدہ کے چارٹر اور اصولوں کا تحفظ ضروری ہے۔

پاکستان سلامتی کونسل میں توسیع کا خواہاں نہیں

نگراں وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کا ماننا ہے کہ سلامتی کونسل میں اضافی مستقل ارکان اس کی ساکھ اور قانونی حیثیت کو مزید نقصان پہنچائیں گے۔ کونسل کی توسیع کے لیے متفقہ گروپ کی تجویز کو یکجا کرنے کی بنیاد پر وسیع تر ممکنہ معاہدہ حاصل کیا جاسکتا ہے جس میں طویل مدتی نشستوں کی محدود تعداد کا اہتمام کیا گیا ہے۔

عالمی مستقبل محفوظ بنانے کے لیے بڑی طاقتوں کے درمیان تناؤ ختم کیا جائے

وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ آج اور مستقبل میں امن اور خوشحالی کی تعمیر، تحفظ اور فروغ کے لیے ضروری ہے کہ بڑی طاقتوں کی دشمنی اور تناؤ کو کم کیا جائے۔

انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ  اقوام متحدہ کے منشور پر سختی سے عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے، سلامتی کونسل کی قراردادوں پر مسلسل عمل درآمد کیا جائے، تنازعات کی بنیادی وجہ کو ختم کیا جائے اور طاقت کے عدم استعمال، خود ارادیت، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے اصولوں کا احترام کیا جائے۔

ریاستوں کے داخلی معاملات میں عدم مداخلت اور پرامن بقائے باہمی اختیار کی جائے، پاکستان ایک نئے، منصفانہ اور پرامن عالمی نظام کے ان اہم عناصر کو عملی جامہ پہنانے کے لئے تمام رکن ممالک کے ساتھ تندہی اور فعال طور پر کام کرے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp