تمغہ یا کلنگ کا ٹیکہ

اتوار 24 ستمبر 2023
author image

صنوبر ناظر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

غالباً 2 ہفتے قبل سوشل میڈیا کے توسط سے یہ خوشگوار اور حیرت انگیز اطلاع ملی کہ 5 خوبرو نوجوان لڑکیاں ’مس یونیورس‘ پاکستان کے مقابلے کے لیے منتخب ہوئی ہیں۔ پہلے تو یقین ہی نہیں آیا کہ ایسے گھٹن زدہ ماحول میں وہ کون سی بہادر لڑکیاں ہیں جو معاشرے کی غلیظ نظروں سے نظریں ملانے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔ پھر خبر کے مستند ہونے پر شبہ اس لیے نہیں رہا کہ خواتین پر نگاہ رکھنے پر تو اس سماج کے کئی طبقوں کے آگے بڑے بڑے سورما بھی پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔

فوراً سے پیشتر مختلف حلقوں کی جانب سے ایک روایتی بیان داغا گیا کہ ان 5 حسیناؤں نے اس سماج کو شدید خطرات سے دوچار کردیاہے۔ ساتھ ہی حکومت کو بھی لتاڑا اور حکم صادر کیا کہ نوٹس لے کر ذمہ داروں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے اور کم ازکم ملک کی ’نمائندگی‘ کا تاثر زائل کیا جائے۔

جبکہ انہی دنوں ایک ادھیڑ عمر مرد کی ایک نوعمر لڑکے کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہوئے تصاویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں، لیکن مجال ہے کہ ہمارے لوگوں کوایسی تصاویر دیکھ کر رتی برابر بھی فکر لاحق یا شرم دامن گیر ہوئی ہو۔ نا ہی اس پر کسی نے کہا کہ ہم مزید کہاں تک نیچے گریں گے؟۔

دراصل ان کی سوچ بھی درست ہے کہ یہ پاکستانی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کہ کوئی لڑکی ’مس یونیورس‘ کے مقابلے کے لیے منتخب ہوئی ہے جبکہ پاکستانی معاشرے میں ایسے واقعات روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں رونما ہوتے رہتے ہیں۔ کتنے ہی ایسے نام نہاد افراد بچوں کے ساتھ نازیبا حرکات کرتے رنگے ہاتھوں پکڑے جاتے ہیں۔

کتنی ہی معصوم بچیوں کو بلوغت سے پہلے ہی جنسی زیادتی کرکے کوڑے کے ڈھیر پر پھینکنے والے اپنے ہی خاندان یا محلے کے فرد ہی مجرم ثابت ہوتے آئے ہیں۔

اپنے ملک کے عوام کو سرِعام اقلیت کے خلاف اکسانے پر، ان کے گھربار جلانے اور قتل کرنے پر ان طبقات کے سر کبھی شرم سے نہیں جھکے۔

ظاہر ہے اب یہ قوم اپنے گھناؤنے اعمال پر اتنے تواتر سے نیچے گرتی رہی ہے کہ اب تک تو وہ بے حس ہو کر زمین بوس ہو چکی ہے۔

لیکن لڑکیوں کا خوبصورتی کے مقابلے میں حصہ لینا توبہ توبہ؟ کم از کم ان کی نظر میں یہ گناہِ کبیرہ بھی ہے اور استغفراللہ یہ تو کھلم کھلا ہماری ثقافت کے خلاف سازش بھی ہے۔

جیسے ہی اس خبر کا پرچار ہوا بس پھر کیا تھا پورا ملک جو اس سے پہلے غمِ روزگار اور مہنگائی کا مارا ہوا تھا دفعتاً گوگل سرچ پر لگ گیا اور مقابلہ حسن کی تمام امیدواروں کا شجرہ نسب کھنگال ڈالا۔

’مس یونیورس‘ پاکستان کا انعقاد مالدیپ میں کیا گیا جس میں 200 دوشیزاؤں میں سے 5 نے مقابلہ جیتا۔ اگلا مرحلہ اب ان 5 میں سے ایک حسینہ کو ’مس یونیورس‘ کے مقابلے کے لیے چننا تھا۔ قرعہ فال کراچی سے تعلق رکھنے والی لڑکی ’ایریکا رابن‘ کے نام نکلا۔ ابھی تک یہ ایک پہیلی ہی ہے کہ آیا نومبر میں ایریکا رابن سینٹرل امریکا کے ملک ایل سیلواڈور میں اس مقابلہ حسن میں پاکستان کی نمائندگی کرتی نظر آئیں گی یا انہیں اس مقابلے سے سبکدوش ہونے کا حکم سنایا جائے گا۔

پاکستان جیسے ملک میں ساری ’تان‘ عورت کی عزت پر ہی ٹوٹتی ہے۔ عورت کے ساتھ ریپ ہونے پر اس کی لوٹی ہوئی عزت کو ’مُردے سے پرواز کی جانے والی روح سے تشبیہ دینا‘ ہمارے جیسے بے حس معاشرے کا ہی وطیرہ ہو سکتا ہے۔

حیرانی تو اس امر پر ہے کہ دیگر ممالک مثلاً ترکیہ، ملائیشیا، مصر، بنگلا دیش، بحرین، قازقستان، انڈونیشیا، کوسووو، کرغزستان، لبنان اور مراکش کیا غیر مسلم ممالک ہیں؟۔

ایک لمبی مسلم ممالک کی فہرست ہے جہاں لڑکیاں ریاستی سرپرستی میں ایسے ’ورلڈ بیوٹی مقابلوں‘ میں بلا جھجھک اور فخر سے حصہ لیتی ہیں۔ تو پاکستان سے ایریکا رابن جیسی بہادر اور پراعتماد لڑکیوں پر قدغن کیوں ہے؟۔

اٹھارویں صدی میں ایک فرینچ پلے میں ’ڈمب بلونڈ‘ کی اصطلاح استمعال ہوئی تھی۔ اس اسٹیریو ٹائپ سوچ کو ہالی ووڈ نے 1950 اور 70 میں عروج پر پہنچایا۔

وقت کے ساتھ ساتھ اس دقیانوسی سوچ میں کمی بھی آئی اور ایسی ٹرم استمعال کرنے والوں پر تنقید بھی کی گئی لیکن اس اسٹیریو ٹائپ سوچ کو ختم کرنے میں ان افراد نے بہت محنت کی جنہیں صرف خوبصورتی کی بنیاد پر ڈمب یا بیوقوف اور صرف سیکس سمبل سمجھا جاتا تھا۔

ہمارے معاشرے میں آج بھی یہی سوچ رائج ہے۔ جبکہ خوبصورت یا معمولی شکل کا انسان معمولی سمجھ بوجھ کا حامل بھی ہوسکتا ہے اور بہت ذہین بھی۔ ظاہری خوبصورتی یا بدصورتی کا دماغی یا جسمانی صلاحیتوں سے بھلا کیا لینا دینا ہے۔

اس ساری تمہید کا یہاں مطلب یہ بتانا ہے کہ یہ صرف جسمانی نمائش کا شو نہیں ہوتا بلکہ ایسے ’بیوٹی کونٹیسٹ‘ میں حصہ لینے والی حسینائیں ناصرف ظاہری طور پر بلکہ ذہنی طور پر بھی خوبصورت اور چاق و چوبند ہوتی ہیں، پُراعتماد ہوتی ہیں اور اپنی ذات پر بھروسہ کرتی ہیں۔

دیکھئے دنیا میں تنقید تو ہر عمل پر باآسانی کی جاسکتی ہے لیکن جس طرح کچھ گھٹیا تصاویر اور ویڈیوز دیکھ کر گھن آتی ہے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ کم از کم ایسے مقابلہ حسن کو دیکھ کر یہ کیفیت تو ہرگز نہیں ہوتی۔

سادہ سی بات ہے کہ اگر کسی بھی سماج کے ٹھیکیداروں کو ایسے شوز سے مسئلہ درپیش ہے تو انہیں اپنی اپنی ملازمت پر توجہ دینی چاہیے چہ جائیکہ وہ دوسروں کے گریبانوں میں جھانکیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان حوصلہ مند لڑکیوں کی ہمت افزائی کرتے ہوئے انہیں تمغے دیے جاتے لیکن افسوس ہمارا سماج ایسی پُراعتماد لڑکیوں کو کلنک کا ٹیکا بنا دیتا ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp