یہ امریکی شہر لاس اینجلس میں واقع ایک سٹوڈیو کے چھوٹے سنیما ہال کا منظر ہے جہاں ہالی وڈ کے مشہور ہدایت کار اور پروڈیوسرز کو عجیب قسم کی بے چینی اور اضطراب نے گھیر رکھا تھا۔ ریلیز سے پہلے فلم کے رشز پرنٹ دیکھنے کے لئے بنے اس جدید سنیما گھر میں فلم سے جڑی کاسٹ اور کریو کے مرکزی لوگ بیٹھے تھے۔ روشنی کم تھی اور فضا میں ایک گھمبیر خاموشی تھی۔ یہ کچھ پریشان کر دینے والا منظر ہو سکتا تھا۔ ہدایت کار کی نظریں سکرین پر گڑی تھیں جہاں فلم کے سب سے جذباتی اور اہم سین کو منجمد کر دیا گیا تھا۔ سب لوگ اس خاموشی سے مضطرب ہو رہے تھے۔ آخرکار فلم کے میوزک ڈائریکٹر نے ہمت کی اور آگے بڑھے ۔
”سر یہ کچھ اس طرح ہے کہ جیسے ہی یہ سین شروع ہوتا ہے ہم اس سارے ماحول کو موسیقی سے ابھارتے ہیں اور۔۔۔۔۔۔۔“
یک دم ہدایت کار نے اپنا ہاتھ کھڑا کیا اور میوزک ڈائریکٹر کی بات کاٹ دی۔ ہال میں موجود سب لوگوں کے حلق سوکھ گئے۔
”یہ کس کا آئیڈیا ہے۔۔۔“ ان کی گھمبیر آواز ہال میں گونجی۔
” سر میری ٹیم ہے اور اس کے علاوہ یورپ اورایشیاکے کچھ موسیقار بھی ہیں جن سے کام لیا گیا۔“
ہدایت کار اپنی نشست سے اٹھے تو کچھ لوگ بھی ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ وہ کچھ دیر اپنے میوزک ڈائریکٹر کی آنکھوں میں گھورتے رہے ۔ پھر ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ ہال میں موجود افراد پریشانی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
”وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑے گا کہ اب آپ اس فلم کے میوزک ڈائریکٹر نہیں رہے۔“
اتنا کہنے کے بعد وہ دروازے کی طرف چل دیے۔ ہال کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔دروازہ سامنے تھا ۔ وہ رکے اور مڑے۔
” میں نے تمہیں اس لئے فائر کیا پیٹر کیونکہ آج سے تم میرے لئے کام نہیں کرو گے بلکہ اب تم میرے ذاتی دوست ہو اور میں تمہیں اور تمہاری ٹیم کو اپنے گھر ڈنر کے لئے مدعو کرنا چاہوں گا۔ کیا آپ سب اس دعوت کے لئے وقت نکال پاؤ گے؟“
پیٹر نے ادھر ادھر دیکھا اور بے یقینی میں سر ہلادیا۔
” اس سین میں جو پسِ پردہ فنکار ہیں وہ بھی اس دعوت کا حصہ ہیں۔ مجھے ان سے مل کرخوشی ہو گی ۔اور ہاں اگر مجھے اپنی ذاتی لائبریری کے لئے اس فلم کی موسیقی مل جائے ۔“ وہ مسکرائے اور باہر نکل گئے۔ہال فلم کریو کی تالیوں سے گونج اٹھا۔”ہم نے کر دکھایا۔“ پیٹر نے اپنی ٹیم کی طرف دیکھا اورتالیاں بجاتے مسکراتے کریو کے درمیان سے ہوتا ہوا ہال کی پچھلی جانب اپنےآفس کی طرف چل پڑا۔
یہ ایک لمبا دن تھا جس کا اختتام بظاہرا اچھا ہو رہا تھا۔ پیٹر نے فون اٹھایا اور لائل پور کا نمبر گھمایا۔ دوسری جانب پرویز تھا۔” مجھے یقین تھا پرویز کہ یہ بس تم ہی کر سکتے تھے اور تم نے کر دیا،شکریہ پرویز۔ تمہارے فن کا اور تمہاری محنت کا۔“
” آپ کا بھی شکریہ پیٹر۔ یہ سب آپ کی وجہ سے ممکن ہوا۔“ دوسری جانب پرویز بھی اس کامیابی پر خوش تھا۔موسیقی کے دیوتا لاس اینجلس اور لائل پور پر نچھاور ہو ئے جاتے تھے۔
فلم ریلیز ہوئی ، متنازع ہوئی، اور دنیا بھر میں پسند بھی کی گئی۔ جس سین پر ہدایت کار چونک اٹھے تھے وہی اس فلم کا سب سے مقبول سین قرار پایا۔ یہ اطالوی نژاد امریکی ہدایت کار مارٹن سکورسیسی تھے جنھوں نے برطانوی موسیقار پیٹر گیبرئیل کو اس فلم کی موسیقی کے لئے چنا تھا اور پھر انہیں اپنا ذاتی دوست بنا لیا تھا۔ ہالی وڈ کی یہ دو قد آور شخصیات پرویز کی شکر گذار تھیں جن کے سُروں نے اس فلم کی اڑان کو اٹھان بخش دی تھی۔
لائل پور کے پرویز اور کوئی نہیں بلکہ استاد نصرت فتح علی خان ہی تھے۔ فلم تھی 1988کی”دی لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ۔“
مستنصر حسین تارڑ کے ساتھ ایک نشست میں استاد نصرت نے ایک ذاتی یاداشت سانجھی کی جو بچپن میں ان کا نام پرویز رکھا گیا تھا۔ استاد جی نے بتایا کہ ان کے گھر میں سب بھائی بہنیں اور قریبی دوست تب بھی انھیں پے جی کے نام سے بلاتے تھے۔ پیٹر گیبرئیل بتاتے ہیں وہ اس وقت الجھن کا شکار ہو گئے جب استاد نصرت کے آلاپ ریکارڈ کرتے ہوئے ان کا سافٹ ویئر خان صاحب کے سروں کی تپش تلے تمام ہو گیا اور کمیپوٹر نے کام کرنے سے معذرت کر لی۔تب استاد جی کے آلاپ کو محفوظ کرنے کے لئے ڈیجیٹل کے ساتھ ساتھ ٹیپ پر بھی ریکارڈ کیا گیا۔ یہ ٹیپ آج بھی ان کے پاس موجود ہے۔
فلم کے مرکزی اداکار ولیئم ڈافو کے ساتھ ساتھ ہالی وڈ بھی استاد نصرت کا مداح بن چکا تھا۔ پہلی فلم کے بعد”نیچرل بورن کلرز“ ، اور ”ڈیڈ مین واکنگ“ جیسی فلموں میں موسیقی اور کینیڈین امریکن میوزک ڈائریکٹر مائیکل بروک کے ساتھ سُروں کا وہ سلسلہ شروع ہواجو آج بھی موسیقی کے مکتب میں مقدم مانا جاتا ہے۔خدائی صداؤں کے یہ صحیفے جاری رہتے جو استاد نصرت کو جانے کی جلدی نہ ہوتی۔